سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

کام کاج کے لیےلمبی مدت تک خاوند کے باہرجانے کی صورت میں بیوی کوگھرمیں چھوڑنے کی مشکل

6713

تاریخ اشاعت : 09-06-2004

مشاہدات : 7648

سوال

کیا گھرمیں بیوی کوچھوڑنا اوراسے یہ کہنا کہ میرے بغیر توگھر سے نہیں نکل سکتی ، غلط ہے ؟
میں دن میں پندرہ گھنٹےاورہفتہ کے ساتوں دن کام کرتا ہوں اوروہ گھرمیں اکیلی بور ہوجائے گی ، تین ہفتوں کے بعد مجھے ایک دن کی چھٹی ملتی ہے وہ بھی جب میرا نصیب ہو ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

1 – بلاشک دنیاوی زندگی ميں خواہشات بہت ہی زیادہ ہیں ، اورانسان کوگمراہ کرنے کے لیے شیطان مختلف انواع واقسام کے طریقے استعمال کرتا ہے ، اس لیے خاوند پر واجب ہے کہ وہ اس میں احتیاط سے کام لے ، اوراللہ تعالی نے اس کی بیوی اوراولاد کے بارہ میں اس پر بہت ہی اہم ذمہ داری ڈالی ہے ، اوران کی حفاظت و تربیت کا معاملہ بھی اسی کے سپرد کیا ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے بارہ میں کچھ اس طرح فرمایا :

( تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اوراسےاس کی رعایا کے بارہ میں سوال کیا جائے گا ۔۔۔ آدمی اپنے گھرکا راعی اورذمہ دار ہے وہ اپنی رعایا کےبارہ میں جوبدہ ہوگا ، اورعورت بھی اپنے خاوند کے گھرکی ذمہ دار ہے اسے بھی اپنی رعایا کے بارہ میں جواب دینا ہوگا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 893 ) ۔

2 - اوریہ بھی یاد رہے کہ عورت بھی ایک گوشت اورخون سے پیدا شدہ بشر ہی ہے ، پرفتن قسم کے لوگوں کودیکھ اوران کی سن کروہ بھی متاثر ہوسکتی ہے ، اس لیے یہ ضروری ہے کہ خاوند اسے بھی اپنے ذہن میں رکھے ، اورغلط قسم کی اثرانداز ہونے والی اشیاء سے اسے بچا کررکھے اوراسی طرح شرو برائی والی جگہوں پر لےجانے سے بھی بچائے ۔

3 - مسلمان خاوند پر ضروری ہے کہ وہ صرف دنیا کے لیے ہی نہ زندگي بسر کرے اورایک گونگی اوربے حس مشین اورآلے کی طرح کام میں جتا رہے ، اگرچہ مال کی خواہش بہت ہی زيادہ ہوتی ہے ، لیکن جو چيز اللہ تعالی کے پاس ہے وہ زيادہ بہت اورباقی رہنے والی ہے ۔

لھذا اسے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ کم وقت والا کام کرے اگرچہ اس میں اسے اجرت کم ہی حاصل ہو جب وہ کم اجرت اس کے لیے کافی ہو اوراس کی ضروریات زندگی پوری کرتی ہو تا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے بھی وقت نکال سکے اوران کا خیال اورتربیت کرسکے ۔

4 - اتنی دیر تک عورت کوگھرمیں اکیلا رکھنا مناسب نہيں ، الا یہ کہ اگر بیوی کے لیے اس کے بدلے میں کوئي ایسی چيز ہوجوخاوند کے غیاب کا عوض بن سکے ، مثلا اسلامی تعلیمات اوردینی تعلیم کا حصول وغیرہ ، اوراسی طرح ایسے لوگوں ( عورتوں ) کے ساتھ اکٹھے ہونا جوخیراوربھلائی کے کام کرنے کی ترغیب دلاتے ہوں ۔

اوربیوی کویا تو اکیلا گھر ميں چھوڑ دینا یا پھر کسی گیم وغیرہ کے لیے یا ٹیلی ویژن کے گندے پروگرام دیکھنے کےلیے اوریا پھر غلط قسم کے پڑوسیوں کےساتھ یاپھر بری صحبت میں چھوڑ دینا بہت ہی بری بات ہے اورناجائز ہے ، اوراس طرح کے کام میں زيادتی کرنے والے اپنے رب کی ملاقات ( موت ) سے قبل ہی اس کا انجام دیکھ لیتے ہیں ۔

5 - عورت کا گھر سے خاوند یا پھر کسی محرم کے بغیر نکلنے کے بارہ میں گزارش ہے کہ اگر راستہ پرامن ہو اورجہاں وہ جارہی ہے وہاں کسی قسم کا خطرہ نہیں ، اورعورت پر بھی بھروسہ ہے کہ وہ غلط کام نہیں کرے گی تواس کے پھرخاوند یا کسی محرم کے ساتھ جانے کی شرط نہیں ۔

لیکن یہ یاد رہے کہ سفر کے لیے محرم کی شرط ہے یہ ضروری نہیں کہ شہرمیں جہاں کہیں وہ جائے محرم بھی اس کے ساتھ ہو ، لیکن اگر تھوڑی سی مسافت میں بھی فتنہ اورفساد ہے توپھر اسے اکیلی نہیں جانا چاہیے بلکہ یا تو وہ خاوند کوساتھ لے یا پھر کسی ایسے محرم کوجواس کی حفاظت کرے اوراس کوفتنہ و فساد سے بچا کررکھے ۔

6 - کفارمعاشرے اوران کے ممالک میں مسلمانوں پر ضروری اورواجب ہے کہ وہ اپنے آپ اوراپنے اہل وعیال کی حفاظت وحمایت کی کوشش کریں مثلا کچھ مسلمان مل کرایک بلڈنگ کرایہ پر حاصل کریں یا پھر ان کے گھر ایک دوسرے کے قریب ہونے چاہیے تا کہ اہل وعیال کے لیے ایک اسلامی فضا اورماحول تیار ہوسکے ، اوران کی حفاظت بھی ہو۔

اورپھر اس سے ایک مسلمان عورت کواچھی اورصالحہ عورتوں کی صحیبت بھی حاصل ہوگی جس سے وہ خاوند کی غیر موجودگی میں اپنے آپ کوتسلی دے سکے اوران سے مستفید بھی ہوسکے گی ۔

ہم آخرمیں اللہ رب العزت سے دعا گوہيں کہ اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اورہماری اولادوں کوہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اورہمیں متقی لوگوں کا امام بنا، اورہمارےنبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل فرما ، آمین یا رب العالمین ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد