اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مطلقہ بيوى كے پاس پرورش پانے والے بچے كى رہائش كا خرچ كون ادا كريگا ؟

85331

تاریخ اشاعت : 04-06-2013

مشاہدات : 3846

سوال

ميرے دوست كى بيوى نافرمان ہے، اور وہ اپنے ميكے جا چكى ہے اور ايك برس سے وہيں رہ رہى ہے اس دوران اس نے ايك بچى كو بھى جنم ديا، جب وہ ميكے گئى تھى تو حاملہ تھى اور اس ايك برس كے دوران ميرے دوست كى بيوى نے اپنے خاوند كے خلاف شرعى عدالت ميں مقدمہ كر ركھا كہ وہ اپنے خاوند كے نكاح ميں رہتے ہوئے ضرر اٹھا رہى ہے.
ليكن عدالت كسى نتيجہ پر نہيں پہنچ سكى، كيونكہ عدالت نے اسے ضرر يافتہ نہيں پايا، حتى كہ اس كے دوسرے وكيل نے بھى اسے يہى مطمئن كرنے كى كوشش كى كہ وہ خلع لے لے، اور اس كے ساتھ يہ بھى كوشش كى كہ ميرا دوست مہر اور شادى كے اخراجات چھوڑ دے، بلكہ بچى كے اخراجات كى مد ميں ( 90 ) ليبى دينار بھى ادا كرے، ميرے دوست كے ليے يہ بہت زيادہ رقم ہے كيونكہ وہ كام كاج نہيں كرتا.
ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا بچى كے اخراجات ميں اس كى رہائش كا بھى خرچ پايا جاتا ہے جو باقى اخراجات كے ساتھ بچى كى ماں كو ادا كيا جائيگا ؟
برائے مہربانى اس كے متعلق معلومات فراہم كريں، كيونكہ يہ مسئلہ شرعى معاملہ پر موقوف ہے، كہ آيا يہ چيز بھى نفقہ كے تحت آتى ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بچے كا نفقہ اس كے والد پر واجب ہے، نہ تو يہ بچے كى ماں كو طلاق ہو جانے اور نہ ہى خاوند كى نافرمانى كرنے كى صورت ميں ساقط ہوگا، اگر بچہ ماں كى پرورش ميں ہے تو بچے كا خرچ ماں كو ديا جائيگا.

اسى طرح پرورش كرنے والى ماں كو بچے كو دودھ پلانے كى اجرت كا مطالبہ كرنے كا بھى حق حاصل ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو اگر وہ عورتيں تمہارے ( بچوں كو ) دودھ پلائيں تو تم انہيں ان كى اجرت دو، اور اچھے طريقہ سے مشورہ كرو الطلاق ( 6 ).

جو بچہ ماں كى گود ميں پرورش پا رہا ہو اس كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا اس كے واجب نفقہ ميں رہائش بھى شامل ہے يا نہيں ؟

كچھ علماء كرام كہتے ہيں كہ باپ پر لازم ہے كہ بچے كو رہائش مہيا كرے، اور رہائش كے اخراجات بھى باپ كے ذمہ ہونگے، كيونكہ بچے كے ليے رہائش ضرورى ہے.

ليكن كچھ علماء كرام كہتے ہيں كہ بچہ رہائش كا محتاج نہيں، بلكہ ماں كى رہائش پر اكتفا كريگا؛ اس ليے كہ بچہ ماں كى گود ميں پرورش پا رہا ہے.

اور ابن عابدين رحمہ اللہ نے ايك تيسرا اور درميانہ قول اختيار كيا ہے، اور يہ حسن رحمہ اللہ كا بھى قول ہے كہ: اگر ماں كے پاس رہائش نہ ہو تو پھر بچے كى رہائش كا كرايہ واجب ہو گا؛ ليكن اگر ماں كے پاس رہائش ہے تو پھر باپ پر بچے كى رہائش كا كرايہ لازم نہيں ہے، ان كا كہنا ہے:

" حاصل يہ ہوا كہ: صحيح يہى ہے كہ بچے كو رہائش مہيا كرنا لازم ہے، ليكن يہ اسى صورت ميں ظاہر ہوتا ہے جب ماں كے پاس مسكن و رہائش نہ ہو، ليكن اگر ماں كے پاس مسكن و رہائش ہو جس ميں وہ اپنے بچے كى پرورش كر سكتى ہو، اور وہ اس كے تابع ہو كر اس رہائش ميں رہے تو پھر بچے كے باپ پر رہائش مہيا كرنا لازم نہيں؛ كيونكہ اسے اس كى ضرورت ہى نہيں، اور اس كا جانبين كے ليے نرم و آسان ہونا كسى پر مخفى نہيں، اس ليے اسى پر عمل ہونا چاہيے " انتہى بتصرف.

ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 3 / 562 ).

اس مسئلہ ميں علماء كرام كے اختلاف كو مدنظر ركھتے ہوئے اس سلسلہ ميں قاضى سے رجوع كيا جائيگا، اور قاضى كو جو حق محسوس ہو وہ اس كے مطابق فيصلہ كر كے طرفين كو اس پر عمل كرنے كا حكم صادر كريگا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب