اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا وہ منکرین حدیث خاندان سے بائکاٹ کردے

9067

تاریخ اشاعت : 25-04-2009

مشاہدات : 15534

سوال

اگرخاندان والے یہ کہیں کہ انسان حدیث کوچھوڑ کرصرف قرآن مجید پرعمل کرے ، توکیا ایسے لوگوں کوسلام کہنا اورعید کی مبارکباد دینی چاہیے تاکہ فتنہ کم ہواورانہیں تنگ نہ کیا جاۓ ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


اول :

مسلمان پرواجب اورضروری ہے کہ وہ سب احادیث صحیحہ پرایمان لاۓ اوران میں سے کسی ایک کا بھی رد نہ کرے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اورسنت اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہیں ، توجو بھی احادیث کارد کرتا ہے حقیقت میں وہ اللہ تعالی کی وحی کورد کررہا ہے ۔

اس کے وحی ہونے کی دلیل اللہ تبارک وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

قسم ہے ستارے کی جب وہ نیچے گرے ، کہ تمہارے ساتھی نے نہ تو راہ گم کی اورنہ ہی وہ ٹیڑھی راہ پر ہے ، اورنہ ہی وہ اپنی خواہش سے کوئ بات کہتے ہیں ، وہ توصرف ایک وحی ہے جو اتاری جاتي ہے ، اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے ، جوزورآور ہے پھرسیدھا کھڑاہوگیا النجم ( 1 - 6 )۔

اللہ تعالی نے لوگوں پراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب قرار دی ہے جس کا بہت ساری آیات میں حکم دیا گیا ہے ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :

اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا :

کہہ دیجیے ! کہ اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت کرو ، اگروہ منہ پھیر لیں توبلاشبہ اللہ تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا آل عمران ( 32 ) ۔

اوراللہ جل شانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی وہ حقیقت میں اللہ تعالی کی اطاعت کرتا ہے ، اورجومنہ پھیر لے تو ہم نے آپ کوان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا النساء ( 80 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اے ایمان والو ! اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراپنے میں سے اختیار والوں کی اطاعت کرو ، توپھر اگر تم کسی چیزمیں اختلاف کروتواگر تم اللہ تعالی اورآخرت کے دن پرایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ ، یہ بہت ہی بہتر اور انجام کے اعتبار سے بھی بہت ہی اچھا ہے النساء ( 59 ) ۔

اوراللہ رب العزت کا ارشاد ہے :

نماز کی پابندی کرو اور زکا ۃ ادا کرو اور اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جاۓ النور ( 56 ) ۔

ان آیات کے علاوہ بھی بہت ساری آيات ہیں ۔

سنت نبویہ کا منکر کافر اور مرتد ہے :

امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی نے اپنے رسالۃ " مفتاح الجنۃ فی الحتجاج بالسنۃ " میں کہا ہے کہ :

اللہ تعالی آپ پر رحم کرے آپ کے علم میں یہ ہونا چاہيے کہ جس نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی یا فعلی حدیث جو کہ اصول حدیث کی شروط پرہو کا انکارکیا وہ کافر اوردائرہ اسلام سے خارج ہے ، وہ یھودونصاری اوریا پھر اللہ تعالی کفار میں سے جن کے ساتھ چاہے اٹھایا جاۓ گا ۔ ا ھـ

یہ لوگ جو صرف قرآن مجید پرہی اکتفا کرتے اور اپنے آپ کواہل قرآن کا نام دیتے ہیں ان کا یہ مذھب کوئ نیا نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئ ایک احادیث میں ان سے بچنے کاکہا ہے ان احادیث کا ذکرآگے چل کر شیخ الاسلام ابن تیمیۃ کی کلام میں ہوگا ( ان شاء اللہ ) ۔

اس مذھب کے باطل ہونے کی سب سے واضح اوربین دلائل جو کہ اس کے قائلین بھی نہیں جانتے ! ! !

توپھر یہ لوگ نماز کیسے پڑھتے ہیں ؟

اوردن رات میں کتنی نمازیں پڑھتے ہیں ؟

اور کن کن حالتوں میں زکاۃ واجب ہوتی اوراس کا نصاب کیا ہے ؟

اوراس میں سے زکاۃ نکالنے کی مقدار کیا ہے ؟

اور یہ لوگ حج اورعمرہ کیسے کرتے ہیں ؟

کعبہ کا طواف کتنی بارکیا جاتا ہے ؟

اورصفامروۃ کے درمیان کتنے چکر لگاتے ہيں ؟ ۔۔۔۔

اوراس کے علاوہ بہت سے ایسے احکام ہیں جن کوقرآن مجید اجمالا بیان کرتا ہے اس کی تفصیل بیان نہیں کرتا ، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔

توکیا یہ لوگ ان احکامات پرعمل کرنا چھوڑ دیں کہ یہ قرآن مجید میں نہیں ہیں ؟ ۔

تواگر ان کا جواب ہاں میں ہوا تو انہوں نے اپنے اوپرخود ہی کفر کا حکم لگالیا ، کیونکہ انہوں اس چیزکا انکارکیا ہے جس پرمسلمانوں کا اجما‏ع قطعی ہے اوروہ چیز دین کی ایک ضروری چیز ہے ۔

شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی اطاعت واتباع رسول والی آیات کوذکرکرنے کے بعد کہتے ہيں :

تویہ نصوص اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوواجب کرتی ہيں اگرچہ جوکچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ بعینہ کتاب اللہ میں بالنص نہ ہو ، اور اسی طرح یا آیات کتاب اللہ کی اتباع کوبھی واجب کرتی ہيں ۔

اگرچہ کتاب اللہ کی نصوص کا احادیث میں ذکر نہ بھی ہو بلکہ صرف کتاب اللہ میں ہی پایا جاۓ ، توہم پرضروری اورواجب ہے کہ ہم کتاب اللہ کی بھی اتباع کریں اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی اتباع واطاعت واجب اورضروری ہے ۔

توان دونوں میں سے ایک کی اتباع ہی دوسرے کی بھی اتباع ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ کی تبلیغ فرمائ اورکتاب اللہ نے ہی اطاعت رسول کا حکم دیا ہے ، توکتاب اللہ اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھبی بھی مختلف نہیں ہوسکتے جس طرح کہ کتاب اللہ کی آیات میں بھی اختلاف نہیں ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

اوراگر ( یہ کتاب ) اللہ تعالی کےعلاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتی تووہ اس میں بہت زيادہ اختلاف پاتے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ساری ایسی احادیث وارد ہيں جن میں اتباع کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے وجوب کا بیان ہے :

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ( میں تم میں سے کسی ایک کواپنی مسند پرٹیک لگاۓ ہوۓ نہ پاؤں کہ اس کے پاس کوئ ایسا معاملہ جس کا میں نے حکم دیا یا جس سے روکا ہو وہ اس کے پاس آۓ تو وہ یہ کہے کہ ہمیں کتاب اللہ کافی ہے اس میں جوچیزحلال کی گئ ہم اسے حلال اورجوچيزحرام کی گئ ہے اسے ہم حرام کرتے ہیں ، خبردار آگاہ رہو مجھے کتاب اللہ اوراس کےساتھ اس طرح کی ایک اورچیز دی گئ ہے ، آگاہ رہو وہ قرآن کی مثل یا بڑھ کر ہے ) ۔

یہ حدیث کتب سنن میں کئ ایک طریق کے ساتھ ابوثعلبہ اور ابورافع اور ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہم وغیرہ سے مروی ہے ۔

اورصحیح مسلم میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا :

( میں تم میں ایک ایسی چيزچھوڑ رہا ہوں جسے اگرتم مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوسکتے وہ اللہ تعالی کی کتاب ہے ) ۔

اور حاکم کی روایت میں ( کتاب اللہ و سنتی ) وہ کتاب اللہ اور میری سنت ہے ، کے الفاظ وارد ہیں ۔ اسے علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع حدیث نمبر( 2937 ) میں صحیح کہا ہے ۔

صحیح مسلم میں عبداللہ بن ابوعوفی رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہیں کسی نے کہا کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرما‏ئ تھی ؟ توانہوں نے جواب دیا نہیں ، توانہیں کہا گیا کہ تو لوگوں پر وصیت فرض کردی گئ ؟ وہ کہنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ کی وصیت کی ( کہ اس پرعمل کیا جاۓ ) ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1634 ) ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کریم کی تفسیر ہے جیسا کہ نمازکی تعداد اس میں سری اورجھری قرات کرنے کی تفسیربیان ہوئ ہے اور اسی طرح زکاۃ کے فرائض اوراس کے نصاب کی بھی تفسیر اور مناسک حج اوربیت اللہ کے طواف کی مقداراور صفا مروہ کی سعی اور رمی جماروغیرہ کا بیان حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ہے ۔

توجب یہ سنت ثابت ہے تومسلمان اس پرمتفق ہیں کہ سنت نبویہ کی اتباع واجب ہے ، اور بعض اوقات یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ کچھ احادیث ظاہری قرآن کریم کے خلاف ہيں یا پھر قرآن کریم پرزيادہ ہیں جیسا کہ چوری کا نصاب اور شادی شدہ زانی کی سزا رجم والی احاديث تویہ احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں توصحابہ کرام اورتابعین عظام اورسب مسلمان فرقوں کے ہاں ان پربھی عمل کرنا واجب ہے ۔ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 19 / 84 - 86 ) عبارت میں کچھ کمی بیشی کی گئ ہے ۔

توجس طرح قرآن کریم حق ہے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی حق اورسچ ہے ۔

دوم :

توآپ کے لائق نہیں کہ آپ اپنے خاندان والوں سے بائیکاٹ کریں بلکہ آپ ان کےساتھ اچھا معاملہ اورحسن سلوک سے پیش آئيں اوریہ کوشش کریں اوردعوت دیں کہ وہ سنت نبویہ کی اتباع کریں اوراس پرراضي ہوں ۔

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

اپنے رب کے راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اوربہترین نصیحت کے ساتھ بلائيں اوران سے بہترین طریقے سے گفتگو کریں یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کوبھی بخوبی جانتا ہے ، اور راہ یا فتہ لوگوں سے پورا پورا واقف ہے النحل ( 125 ) ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

ہم نے انسان کواس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے ، اس کی ماں نے دکھ پردکھ اٹھا کراسے حمل میں رکھا اوراس کی دودھـ چھڑائ دوبرس میں ہے کہ تومیری اوراپنے ماں باپ کی شکرگزاری کرو تمہیں میری طرف ہی لوٹ کرآنا ہے ، اوراگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دبا‎ؤ ڈالیں کہ تومیرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو اس میں ان کا کہنا نہ ماننا ، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف رجوع کرنے والا ہو پھر تم سب کا لوٹنا تومیری طرف ہی ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے میں تمہیں خبردارکرونگا لقمان ( 14 – 15 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب