ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

خاوند كو ناپسند كرتى ہے خاوند طلاق دينے سے انكار كرتا ہے لہذا بيوى اسے اس كا حق نہيں ديتى

91878

تاریخ اشاعت : 03-01-2012

مشاہدات : 4354

سوال

ميں ايك ديندار بيوى ہوں ليكن بہت سارے اسباب كى بنا پر اپنے خاوند كو ناپسند كرتى ہوں، اور خاوند كو بھى اس كا علم ہے، ليكن وہ مجھے طلاق نہيں ديتا، ميں بعض اكثر اوقات خاوند كو ازدواجى تعلقات بھى قائم نہيں كرنے ديتى برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس ميں كيا حكم ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بغير كسى سبب كے عورت كے ليے خاوند سے طلاق طلب كرنى جائز نہيں، اور اگر كوئى سبب ہو يعنى بيوى كے حق كى ادائيگى ميں كوتاہى كرتا ہو، يا پھر بيوى پر ظلم كرے تو پھر طلاق طلب كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

ابو داود ترمذى اور ابن ماجہ نے ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى بغير كسى سبب كے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اگر آدمى بيوى كے حق ميں نہ تو كوتاہى كرتا ہو اور نہ ہى اس پر كوئى ظلم و ستم، ليكن بيوى اسے اتنا شديد ناپسند كرتى ہو كہ وہ اس كے ساتھ زندگى نہ بسر كر سكتى ہو اور اس كے حقوق نہ ادا كرتى ہو تو ان دونوں كو اصلاح كى كوشش كرنى چاہيے.

اور اگر اصلاح كى كوششيں كامياب نہ ہوں اور ان دونوں كا ايك دوسرے كے ساتھ زندگى بسر كرنا ممكن نہ ہو تو پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كا حل ركھا ہے كہ بيوى اپنے خاوند سے خلع حاصل كر لے، اس طرح وہ خلع حاصل كرنے كے ليے خاوند كى جانب سے ادا كردا سارا مہر واپس كرے، اور اس وقت آدمى كو اپنا مہر قبول كر كے عورت سے عليحدگى اختيار كرنے كا حكم ديا جائيگا.

امام بخارى رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

ثابت بن قيس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر كہنے لگى:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ثابت بن قيس كے نہ تو اخلاق ميں كوئى عيب لگاتى ہوں، اور نہ ہى اس كے دين ميں، ليكن ميں اسلام ميں كفر كو ناپسند كرتى ہوں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

كيا تم اس كا باغ واپس كرتى ہو ؟

تو وہ عرض كرنے لگى: جى ہاں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: باغ قبول كر لو اور اسے ايك طلاق دے دو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5273 ).

اور سنن ابن ماجہ ميں يہ الفاظ ہيں:

" ميں بغض كى بنا پر اس كى طاقت نہيں ركھتى "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2056 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

چنانچہ اس عورت كو عليحدگى پر ابھارنے والى چيز بغض و ناپسنديدگى تھى.

اور اس كا يہ قول كہ:

" ميں اسلام ميں كفر كو ناپسند كرتى ہوں "

اس سے مراد خاوند كى نافرمانى ہے، يعنى وہ خاوند كے حقوق كى ادائيگى نہيں كر سكتى، بلكہ اس ميں كوتاہى كى مرتكب ہوتى ہے واجب كردہ حقوق ادا نہيں كر سكتى كہ وہ خاوند كى اطاعت كرے اور حسن معاشرت سے پيش آئے.

دوم:

ہم آپ كے ليے يہ واضح كرنا چاہتے ہيں كہ: اگر طلاق لينے كا كوئى ظاہر اور واضح سبب نہيں ہے، يہ كہ خاوند كے ساتھ ہم بسترى سے رك جانا يہ بہت بڑى برائى ہے جس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب خاوند اپنى بيوى كو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انكار كر دے تو خاوند ناراضگى كى حالت ميں رات بسر كرے تو صبح ہونے تك فرشتے اس پر لعنت كرتے رہتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3237 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1736 ).

ہم آپ كو مشورہ ديتے ہيں كہ آپ اپنے خاندان يا پھر خاوند كے خاندان كے اہل اصلاح افراد سے معاونت حاصل كريں جو اسے سمجھائيں كہ وہ اچھے طريقہ سے آپ كو چھوڑ ديں.

سوم:

خاوند كو ہمارى نصيحت ہے كہ وہ ايسى صورت ميں بيوى كو اپنے پاس مت ركھے جبكہ بيوى اس كے ساتھ رہنے سے ضرر اور نقصان ميں ہو، اور اگر وہ اسے اپنے پا سركھنے كى رغبت ركھتا ہو اور طلاق دينے سے انكار كرے، تو خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كے ساتھ حسن معاشرت سے پيش آئے اور نفرت و بغض كے اسباب كو دور كرنے كى كوشش كرے.

اور اگر ايسا كرنا ممكن نہ ہو تو پھر اسے يا تو طلاق دينى چاہيے، يا پھر خلع كر لے، اور بيوى كو گناہ كا مرتكب نہ ہونے دے كيونكہ اس حالت ميں وہ نافرمان ہوگى.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك عورت اپنے خاوند كو ناپسند كرتى ہے، وہ اس ميں نہ تو كوئى اخلاقى عيب لگاتى ہے، اور نہ ہى دينى، اور اس نے اپنا سارا مہر بھى واپس كر ديا ہے تو كيا اس خاوند كو مجبور كيا جا سكتا ہے كہ وہ اپنى بيوى كو طلاق دے، چاہے وہ اسے ركھنا چاہتا ہو اور بيوى اسے ناپسند كرتى ہو ؟

كميٹى كا جواب تھا:

جب بيوى اپنے خاوند كو ناپسند كرتى ہو، اور اسے خدشہ ہو كہ وہ اللہ كى حدود كى پابندى نہيں كر سكےگى تو پھر اس وقت خلع لينا مشروع ہے، وہ اسطرح كہ جتنا مہر خاوند نے ديا تھا وہ واپس كر دے، اور پھر اسے اپنے سے جدا كر دے؛ كيونكہ ثابت بن قيس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى كى حديث كى بنا پر...

اور جب خاوند اور بيوى ميں نزاع اور جھگڑا ہو جائے تو پھر اسے شرعى حاكم كے سامنے پيش كر كے حل كرائے تا كہ وہ ان كا فيصلہ كرے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 411 ).

ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى سب مسملمانوں كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب