سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

خیراتی اداروں کی رقوم پر زکاۃ نہیں ہے

سوال

ہم غریب لوگوں کی مدد کیلئے ایک خیراتی ادارے میں رقوم جمع کرتے ہیں، اور اس میں سے قرض لینے والوں کو قرض بھی دیتے ہیں، اب اس میں ایک بڑی رقم جمع ہو چکی ہے، تو کیا اس میں زکاۃ واجب ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ضرورت مندوں کو قرض  فراہم کرنے یا آفات و مشکلات میں پھنسے غریبوں کی مدد کیلئے خیراتی ادارے میں جمع شدہ رقوم  پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی، کیونکہ یہ کسی فرد کی ملکیت میں نہیں ہے، بلکہ اس کا حکم وقف مال والا ہے، اور وقف مال میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
" ایک قبیلے والوں نے آپس میں کچھ مال جمع کر رکھا ہے، اوریہ مال ضرورت کے وقت قبیلے والوں کی طرف سے خون بہا فدیہ دینے کے لئے مختص ہے، نیز انہوں نے سرمایہ کاری کرتے ہوئے اسے تجارت میں لگا دیا ہے، جس سے ہونے والا نفع بھی فدیہ کے لئے ہی مختص ہے، تو اس مال میں زکاۃ واجب ہوگی یا نہیں؟ اور اگر اس مال کو تجارت میں نہ لگایا جائے تو کیا اس میں زکاۃ واجب ہے یا نہیں؟ اور کیا خود قبیلے والوں کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی زکاۃ بھی اس مال میں شامل کر دیا کریں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:

" اگر حقیقت اسی طرح ہے جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے، تو اس مال میں زکاۃ نہیں ہے، اس لئے کہ یہ مال وقف کردہ مال کے حکم میں ہے، چاہے اس مال سے تجارت کے جائے یا نہ کی جائے، جبکہ اس مال میں زکاۃ شامل کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ یہ مال زکاۃ کے مصارف کیلئے مختص نہیں ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (8/291)

اسی طرح ان سے یہ بھی پوچھا گیا:
" قبیلے کے افراد کیلئے  فنڈ کا قیام قبیلے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وجود میں آیا ہے، جیسے [اللہ نہ کرے]  خون بہا کی دیت، اور دیگر لڑائی جھگڑے  نمٹانے کے لئے اس فنڈ کو شروع کیا گیا ہے،  پھر اس رقم کو اسلامی مضاربت میں لگا دیا گیا، تو کیا اس میں زکاۃ واجب ہوگی؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر واقعہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ذکر کیا گیا، اور جمع کردہ رقم دہندگان کو واپس نہیں کی جائے گی، اور اگر یہ پروجیکٹ ناکام ہو بھی جائے تو اس رقم کو دیگر رفاہی کاموں میں خرچ کیا جائے گا، تو ایسی صورت میں اس رقم میں زکاۃ واجب نہیں ہے، اور اگر پروجیکٹ ناکام ہو جانے کی صورت میں  دہندگان کو ان کی رقم واپس کر دی جائے گی، تو ہر ایک پر اس کے اپنے جمع کردہ مال کے حصہ میں زکاۃ واجب ہوگی، بشرطیکہ اس پر سال گزر جائے۔" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة (8/296)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ایک ایسے ہی رفاہی ادارے کے بارے  کہتے ہیں جس کے ممبران ماہانہ مخصوص رقم جمع کرتے ہیں، اور پھر ان رقوم سے حادثات، خون بہا دیت وغیرہ ادا کی جاتی ہے اور شادی کیلئے قرض فراہم کیا جاتا ہے:
"اس میں زکاۃ نہیں ہے، کیونکہ ممبران ان رقوم کے اب مالک نہیں ہیں، چنانچہ یہ مال کسی شخص کی ملکیت میں نہیں رہا، اور جو مال کسی معین شخص کی ملکیت میں نہ ہو تو اس میں زکاۃ نہیں ہوتی" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (18/184)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب