اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

زنا سے حاملہ عورت سے وضع حمل اور نفاس كے بعد شادى كرنا

97987

تاریخ اشاعت : 31-12-2008

مشاہدات : 11762

سوال

ايك شخص نے عورت سے زنا كيا اور وہ عورت زنا سے حاملہ ہو گئى بچے كى ولادت اور چاليس يوم ختم ہونے سے قبل ہى نفاس كا خون ختم ہونے كے بعد اسى شخص سے شادى كر لى كيا يہ عقد نكاح صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس عورت پر واجب تھا كہ وہ اس عظيم جرم سے توبہ كرے كيونكہ زنا كبيرہ گناہ اور عظيم جرم اور بہت بڑى فحاشى ہے، اور پھر زانى كے ليے دنيا و آخرت ميں شديد سزا كى وعيد آئى ہے، ليكن جو شخص اللہ كى طرف رجوع كرتا ہوا اللہ كے سامنے توبہ و استغفار كرے اور اپنى اصلاح كر لے تو اللہ اس كى توبہ قبول كر كے اس كے گناہ نيكيوں ميں بدل ديتا ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ كے درج ذيل فرمان ميں بيان ہوا ہے:

اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى دوسرے كو معبود نہيں بناتے اور كسى ايسے شخص كو جسے قتل كرنا اللہ تعالى نے حرام كيا ہے وہ بجز حق كے اسے قتل نہيں كرتے، اور نہ وہ زنا كے مرتكب ہوتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائيگا .

اسے قيامت كے روز دوہرا عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذلت و خوارى كے ساتھ ہميشہ اسى ميں رہيگا .

سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك كام كريں، ايسے لوگوں كے گناہوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اور اللہ بخشنے والا مہربانى كرنے والا ہے الفرقان ( 68 - 70 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور يقينا ميں بہت بخشنے والا ہوں جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك عمل كريں اور راہ راست پر بھى رہيں طہ ( 82 ).

اس عورت كو چاہئے كہ اللہ تعالى نے اس كى ستر پوشى كى ہے تو وہ اسے ظاہر مت كرے، اور كسى كو بھى اس خبر مت دے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ان گندى اشياء سے اجتناب كرو جن سے اللہ سبحانہ و تعالى نے منع كيا ہے، اور جو كوئى شخص بھى ان كا شكار ہو جائے تو وہ اللہ كى ستر پوشى سے ستر حاصل كرے "

اسے بيہقى نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 149 ).

دوم:

زانى مرد كے لئے زانى عورت سے نكاح كرنا جائز نہيں، ليكن اگر وہ توبہ كرے لے تو ايسا كرنا جائز ہيں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ايسا كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا ہے:

زانى مرد زانى عورت اور مشرك عورت كے علاوہ كسى اور سے نكاح نہيں كرتا، اور مؤمنوں پر يہ حرام كيا گيا ہے . النور ( 3 ).

اس ليے اگر شادى سے قبل دونوں توبہ كر چكے ہوں تو ان كا نكاح صحيح ہے، ليكن اگر نكاح توبہ سے قبل ہو تو ان كا نكاح صحيح نہيں ہو گا، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 85335 ) كے جواب بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

رہا اس عورت سے نفاس كا خون ختم ہونے اور چاليس يوم سے قبل نكاح كرنا تو يہ عقد صحيح ہونے پر اثرانداز نہيں ہو گا، كيونكہ ـ اكثر علماء كے ہاں ـ زنا كى عدت گزرنے كا انتظار كرے اور عدت گزرنے كے بعد اگر چاہے تو نكاح كرے چاہے نفاس كے فترہ ميں ہى، اور اس كى عدت وضع حمل سے ختم ہو جائيگى.

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر كوئى شخص كسى عورت سے زنا كرے اور توبہ كے چار ماہ بعد اس سے نكاح كر لے تو كيا اس كا نكاح صحيح ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" زانى عورت سے نكاح كرنا صحيح نہيں، اور زانيہ عورت كے توبہ كرنے اور عدت ختم ہونے سے قبل نكاح كرنا صحيح نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 383 ).

جواب كا خلاصہ يہ ہوا:

اگر تو ان دونوں نے عقد نكاح سے قبل توبہ كر لى تو ان كا نكاح صحيح ہے، اور اگر توبہ نہيں كى تھى تو نكاح صحيح نہيں بلكہ توبہ كرنے كے بعد دوبارہ نكاح كرنا لازم ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ ان كى توبہ قبول فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب