سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

فطرانہ اوراس کے احکام

تاریخ اشاعت : 21-04-2018

مشاہدات : 29418

فطرانہ اوراس کے احکام

فطرانہ کی تعریف :

فطرانہ ایک زکاۃ یا صدقہ ہے جورمضان المبارک کے روزے ختم ہونے پرواجب ہوتا ہے ، اورزکاۃ کی فطر کی طرف اضافت اس لیے ہے کہ یہ اس کے واجب کا سبب ہے ۔

فطرانہ مشروع کرنے کی حکمت :

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کے روزہ کولغو اوربے ہودگی سے پاک صاف کرنے اورمساکین کی خوراک کے لیے فطرانہ فرض کیا ، لھذا جس نے بھی نماز عید سے قبل ادا کردیا تویہ فطرانہ قبول ہوگا ، اوراگر کوئي نماز عید کے بعدا ادا کرتا ہے تو اس کے لیے یہ ایک عام صدقہ ہوگا ۔

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1371 ) امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : ابوداود رحمہ اللہ تعالی نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی روایت سے حسن سند کےساتھ بیان کی ہے  ۔

قولہ : ( طھرۃ ) یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھنے والے کے نفس کی پاکی اورصفائي کے لیے ۔

قولہ : ( الرفث ) ابن اثیر کہتے ہيں کہ یہاں پر رفث بے ہودہ اورفحش کلام کے معنی میں ہے ۔

 قولہ ( وطعمۃ ) طاء پر پیش ہے کھانے والی خوراک کو کہا جاتا ہے ۔

قولہ : ( من اداھا قبل الصلاۃ ) یعنی جس نے نماز عید سے قبل ادا کردیا

قولہ ( فھی زکاۃ مقبولۃ ) یہاں پرزکاۃ سے مراد فطرانہ ہے

قولہ ( صدقۃ من الصدقات ) یعنی وہ عام صدقہ جوعام اوقات میں کیا جاتا ہے ۔ دیکھیں عون المعبود شرح ابوداود ۔

اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے مندرجہ ذیل فرمان سے بھی یہی مراد ہے :

{ یقینا وہ کامیاب ہوگیا جس نے اپنےآپ کو پاک کرلیا اوراپنے رب کو یاد کیا اورنماز ادا کی  } الاعلی ۔

عمربن عبدالعزيز اور ابوالعالیۃ رحمہم اللہ تعالی سے مروی ہے کہ : ان دونوں نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے فطرانہ ادا کیا اور نماز عید کے لیے نکل گیا ۔ دیکھیں احکام القرآن للجصاص  ( 3 / الاعلی ) ۔

اوروکیع بن جراح رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

رمضان المبارک کے لیے فطرانہ ایسے ہی ہے جیسے کہ نماز کےلیے میرا سجدہ سہو ہے ، جس طرح سجدہ سہو نماز کی کمی پورا کرتا ہے اسی طرح فطرانہ بھی روزے کی کمی وکوتاہی پورا کرتا ہے ۔ دیکھیں المجموع للنووی ( 6 )

فطرانے کا حکم

صحیح یہی ہے کہ فطرانہ فرض ہے ، اس لیے کہ ابن عمررضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتے ہيں کہ :

( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ فرض کیا ) اورعلماء کرام کا اس پراجماع بھی ہے کہ فطرانہ فرض ہے ۔ دیکھنے المغنی المحتاج جلددوم باب صدقۃ الفطر ۔

فطرانے کے وجوب کا وقت

فطرانے کے وجوب کا وقت رمضان المبارک کے آخری دن کے سورج غرب ہونے کے وقت ہے ، اس لیے جب رمضان المبارک کے آخری دن کا سورج غروب ہوتو فطرانہ واجب ہوگا ۔

لھذا جس نے بھی سورج غروب ہونے سے قبل شادی کی یا پھر اس کے ہاں ولادت ہوئي ہو یا پھر اسلام قبول کرلے تواس کا بھی فطرانہ ہوگا ، لیکن اگر غروب شمس کے بعد ہوتو پھر فطرانہ لازم نہيں ہوگا ۔۔۔

جوشخص چاند رات فوت ہوجائے اوراس پرفطرانہ ہو تو امام احمد نے اس کی صراحت کی ہے کہ اس پر فطرانہ واجب ہوگا ۔ دیکھیں المغنی جلد دوم فصل وقت وجوب زکاۃ الفطر ۔

فطرانہ کس پر واجب ہے ؟

فطرانہ ہر مسلمان پر واجب ہے ، ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر آزاد اورغلام مذکر اورمؤنث اور چھوٹے بڑے بچے اوربوڑھے ہرمسلمان پر فرض کیا تھا ۔

دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1407 ) ۔

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہيں کہ :

نافع والی حدیث میں اس بات کی دلالت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صرف مسلمانوں پر ہی فرض کیا ہے ، اوریہ کتاب اللہ کے بھی موافق ہے ، اس لیے کہ زکاۃ مسلمانوں کے لیے پاکی اورصفائي کا باعث ہے اورپھر پاکی اور صفائي مسلمانوں کے علاوہ کسی اورکے لیے نہيں ہوسکتی ۔

دیکھیں کتاب الام  للشافعی  جلد دوم باب زکاۃ الفطر ۔

-  فطرانہ صاحب استطاعت پر فرض ہے : امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

جس پر بھی شوال کا مہینہ شروع ہوا اوراس کے پاس ایک دن کی اپنی اوراپنے اہل وعیال اورفطرانہ ادا کرنے کی خوراک ہو تواسے بھی فطرانہ ادا کرنا ہوگا ، لیکن اگر اس کے پاس سب کا فطرانہ ادا کرنے کے لیے خوراک نہيں بلکہ صرف کچھ کا ادا کرسکتا ہو تو اسے ان بعض کا ہی ادا کرنا ہوگا ۔

لیکن اگر اس کے پاس صرف اپنی اوراپنے اہل وعیال کے لیے ہی خوراک ہو نہ تو اس پر اورنہ ہی اس کے ماتحت عیال پر فطرانہ فرض ہوگا ۔

دیکھیں کتاب الام جلد دوم باب زکاۃ الفطر ۔

- امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

تنگ دست پربلاخلاف فطرانہ فرض نہيں  ۔۔۔ اورخوشحال اورتنگ دست کا اعتبار تووجوب کے وقت ہوگا ، لھذا جس کے پاس اپنی اوراپنے اہل وعیال کی عید کی رات کی خوراک سے زیادہ ہو اس پرفطرانہ فرض ہوگا اوریہ خوشحال ہوگا ، اوراگر کچھ بھی زائد نہ ہوتو اسے تنگ دست شمار کیا جائے گا اوراس حالت میں اس پر کچھ بھی فرض نہيں ۔

دیکھیں : المجموع جلد ( 6 ) شروط وجوب صدقۃ الفطر ۔

-  فطرانہ مسلمان اپنی اوراپنے عیال اوربیویوں اوران رشتہ داروں کی جانب سے اگر وہ ادا نہيں کرسکتے تو خود فطرانہ ادا کرے گا اوراگر وہ فطرانہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں تو بہتر اوراولی یہ ہے کہ وہ اپنا فطرانہ خود ہی ادا کریں کیونکہ اصل میں تووہ خود ہی مخاطب ہیں ۔

ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہرمسلمان  غلام اور آزاد اورمذکر ومؤنث اورچھوٹے بڑے اوربچے فطرانہ فرض کیا ، اوریہ حکم دیا کہ لوگوں کے نماز عید کےلیے جانے سے قبل ادا کریں ۔

دیکھیں : صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1407 ) ۔

اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

بے عقل اوربچے کی جانب سے اس کا ولی فطرانہ ادا کرے گا اوراسی طرح جو لوگ اس کی عیالت میں ہوں ان کا بھی وہی اس طرح فطرانہ ادا کرے گا جس طرح ایک صحیح اپنی جانب سےادا کرتا ہے  ، اوراگر اس کی عیالت میں کوئي کافر ہو تو اس کا فطرانہ اس پرلازم نہیں کیونکہ اسے زکاۃ کی ادائيگي  کے ساتھ پاک نہيں کیا جائے گا ۔

دیکھیں کتاب الام  جلد دوم  باب زکاۃ الفطر ۔

اورصاحب مھذب کا کہنا ہے کہ :  مصنف رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

( اورجس پر فطرانہ واجب ہو اس پر اپنے ماتحت اورعیالت میں پلنے والوں کا فطرانہ بھی واجب ہوگا ، لیکن شرط یہ ہے کہ اگر وہ مسلمان ہوں اوراس کے پاس نفقہ سے زيادہ خوراک ہو ، لھذا ماں باپ اوران دونوں کے ماں باپ اور اس سے بھی اوپر والوں ان کی اولاد اوراولاد کی اولاد کا فطرانہ بھی واجب ہوگا ، اسی طرح بیٹے اورپوتے  چاہے اس سے بھی نیچی نسل ہو ان پر ماں باپ اوران کے ماں باپ کا فطرانہ ادا کرنا فرض ہوگا لیکن شرط یہ ہے کہ جب ان کا نفقہ اس پر واجب ہو ) دیکھیں المجموع  جلد نمبر ( 6 ) 

انسان اپنا اوربیوی چاہے بیوی کے پاس اپنامال بھی ہو اوراس کی فقیر اولاد اوروالدین کا فطرانہ ادا کرے ، اوروہ بچی جس کے خاوند نے ابھی اس کے ساتھ دخول نہيں کیا اگر تواس کا بیٹا غنی ہو اس پراس کا فطرانہ ادا کرنا واجب نہيں ، اورطلاق رجعی والی عورت کا خاوند بھی اس کا فطرانہ ادا کرے گا لیکن جوعورت نافرمان ہو اوریا پھر طلاق بائن والی ہو اس کا خاوند ان کا فطرانہ ادا نہيں کرے گا ۔

اوربیٹے کو اپنے فقیر والد کی بیوی کا فطرانہ ادا کرنا ضروری نہیں اس لیے کہ اس پروالد کی بیوی کا خرچہ واجب نہیں ۔

اسے فطرانہ ادا کرنے میں سب سے قریبی سے شروع کرنا ہوگا مثلا سب سے پہلے اپنے آپ پھر بیوی اوراولاد پھر اس کے بعد قریبی رشتہ دار جیسا کہ وراثت میں خیال رکھا گيا ہے ۔

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

اورفطرانہ کس پرواجب ہوتا ہے  : جب رمضان کے آخری دن کوئي پیدا ہویا کسی بھی ملکیت میں ہو یا اس کی عیالت میں آجائے اوراسی حالت میں چاند رات شروع ہوتواس پران کا فطرانہ واجب ہوگا ۔

دیکھیں کتاب الام باب زکاۃ الفطر ۔

لیکن جوبچہ ابھی ماں کےپیٹ میں ہو اس کافطرانہ واجب نہيں لیکن اگر کوئي دینا چاہے تو دے سکتا ہے اس میں کوئي حرج نہيں ۔

اوراگر کوئي شخص فطرانہ واجب ہونے کے بعداسے ادا کرنے سے قبل ہی  فوت ہوجائے تواس کے ترکہ سے فطرانہ ادا کیا جائے گا ، اوراگر اس کی عیالت میں سے کوئي فطرانہ واجب ہونے کے بعد فوت ہوجائے تواس کی وجہ سے فطرانہ ساقط نہيں ہوگا ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی  جلد نمبر( 2 )

اورخادم اور جس کی یومیہ یاماہانہ تنخواہ مقرر ہو اس کی جانب سے فطرانہ ادا نہيں کیا جائے گاکیونکہ یہ ملازم کی طرح ہے اورملازم یعنی اجرت لینے والے پر خرچ نہیں کیا جاتا ۔

دیکھیں : الموسوعۃ لفقھیۃ ( 23/ 339 ) ۔

یتیم کا فطرانہ ادا کرنے کے بارہ میں امام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

یتیم کا وصی یتیموں کے مال سے فطرانہ ادا کرے گا اگرچہ وہ چھوٹے بچے ہی کیوں نہ ہوں ۔

دیکھیں : المدونۃ جلد نمبر ( 1 ) ۔

-  اگر عیدالفطر کے دن کافر اسلام قبول کرلے تو امام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : جوشخص عیدالفطر والے دن طلوع فجر سے قبل اسلام قبول کرلے اس کے لیے فطرانہ ادا کرنا مستحب ہے ۔

دیکھیں : المدونۃ جلد نمبر  ( 1 )

فطرانے کی مقدار

فطرانے کی مقدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک صاع غلہ ہے جیسا کہ اوپر بیان بھی کیا جاچکا ہے اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہم فطرانہ میں ایک صاع غلہ دیا کرتے تھے ۔

دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر  ( 1412 ) ۔

صاع کا وزن غلہ کی نوع کے اعتبار سے مختلف ہوگا ، اس لیے ضروری ہے کہ جو جنس غلہ ادا کی جارہی ہے اس کا صاع پورا بھر ا جائے ، مثلا چاول تقریبا تین کلو بنتے ہیں ۔

فطرانہ میں ادا کی جانے والی اصناف

جس جنس سے فطرانہ ادا کیا جائے وہ آدمی کی خورا ک ہونی چاہیے وہ کھجور ہویا گندم یا پھر چاول ، یا جو وغیرہ جوبھی بنی آدم کھاتے ہیں اس میں سے ادا کی جائے ۔

صحیحین میں ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہرمسلمان آزاد  یا غلام مذکر ہویا مؤنث پرفطرانہ ادا کرنا فرض کیا ، ( اس وقت جوان کی عام خوراک تھی ) صحیح بخاری حدیث نمبر (1408 ) ۔

ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عیدالفطر کے دن ایک صاع خوراک دیا کرتے تھے ، اورابوسعید رضي اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے کہ ان دنوں ہماری خوراک جو اورمنقہ اورپنیر اورکھجور ہوا کرتی تھی ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1414 ) ۔

لھذا فطرانہ میں وہ جنس دی جائے گی جواغلب طور پرلوگ استعمال کرتے اوراس سے مستفید ہوتے ہوں چاہے وہ گندم ہو یا چاول یا کھجور اوردال وغیرہ ۔

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

اگر کوئي قوم مکئي یا باجرہ یا جو یا چاول یا کوئي اور دانےجن میں زکاۃ ہے کو بطور خوراک استعمال کرتی ہو تو ان کے لیے اس کا فطرانہ نکالنا جائز ہے ۔ کتاب الام للشافعی  جلد دوم باب الرجل یختلف قوتہ ۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ہمارے اصحاب کا کہنا ہے فطرانہ میں غلہ کی وہ جنس ادا کی جائے جس میں عشر ہوتی ہے ( یعنی غلہ اورپھلوں کی زکاۃ میں  ) ، اس کے علاوہ کوئي اورچیز کفائت نہیں کرتی صرف پنیر دودھ جبن ۔

ماوردی کا قول ہے :

اوراسی طرح بعض جزیروں والے یا دوسرے جومچھلی اورانڈے بطور خوراک استعمال کرتے ہیں بلاخلاف انہیں یہ کفائت نہيں کرے گا اورگوشت کے بارہ میں صحیح یہی ہے جو امام شافعی اورمصنف رحمہ اللہ اوراصحاب نے بھی سب طرق میں اس پر قطعی فیصلہ کیا ہے کہ یہ کفائت نہيں کرے گا اس میں یہی ایک قول ہے ۔۔۔

ہمارے اصحاب کا کہنا ہے : اسی طرح اگر کسی نے ایسا پھل بطور غذا بنالیا جس میں عشر نہيں مثلا انجیر وغیرہ تویہ بھی قطعی طور پر کفائت نہیں کرے گا ۔ دیکھیں المجموع ( 6 ) الواجب فی زکاۃ الفطر ۔

اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے  :

اگریہ کہا جائے کہ : آپ توہرجگہ ہی کھجور کا ایک صاع واجب قرار دیتےہیں چاہے وہ ان کی غذا ہویا نہ ہو ، اس کا جواب میں کہا جائے گا : یہ نزاعی اوراجتھادی مسائل میں سے ہے کچھ لوگ تواسے واجب کہتےہيں ، اورکچھ لوگ ہرملک میں اپنی خوراک کا ایک صاع واجب قرار دیتے ہیں ، اس کی نظیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافطرانہ میں اصناف خمسہ کی تعیین میں ملتی ہے اوریہ کہ ہرعلاقے والے اپنے علاقے کی خوراک میں سے ایک صاع فطرانہ نکالیں گے  ۔

یہی زيادہ راجح اورقواعدشرعیہ کے بھی زيادہ قریب ہے ، وگرنہ ہم جن لوگوں کی غذا مچھلی یا چاول یا باجرہ ہو انہیں کھجور کا کس طرح مکلف کریں گے ۔۔۔ اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

دیکھیں : اعلام الموقعین للنووی ( جلددوم )۔

قیاس :

گندم سے تیار کردہ مکرونہ میں سے بھی فطرانہ ادا کرنا جائز ہے لیکن اس میں وزن گندم کا ہوگا نہ کہ مکرونہ کا ۔

لیکن فطرانہ مال کی شکل میں نکالنا مطلقا جائز نہيں اس لیے کہ شارع نے خوراک فرض کی ہے نہ کہ مال اورپھر اس کی جنس میں محدد کی ہے جوکہ کھانا ہے لھذا خوراک کےعلاوہ کوئي بھی چيز بطور فطرانہ ادا کرنا جائز نہیں ، اوراس لیے بھی کہ اسے ظاہری چاہا ہے نہ کہ خفیہ ، اوراس لیے بھی کہ صحابہ کرام نے بھی غلہ اورخوراک کا ہی فطرانہ ادا کیا تھا لھذا ہم ان کی اتباع کریں گے نہ کہ کوئي چيز پیدا کریں ۔

پھر غلہ اورخوراک کے ساتھ فطرانے کی ادائيگي میں صاع کی ادائيگي پرعمل ہوسکتا ہے لیکن اگر نقدی اورقیت ادا کی جائے تووہ صاع نہيں بنتی ، اورپھر یہ بھی ہے کہ وہ کس چيز کی قیمت نکالے گا ؟ اور غلہ اورخوراک بطورفطرانہ ادائگي کرنے میں تو فوائد ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ کساد بازاری اورریٹ کے بڑھنے اورلڑائي ومہنگائي کے حالات میں ہوتا ہے ۔

اور کوئي شخص یہ اعتراض کرے اورکہے کہ :

نقدی اورپیسے کی شکل میں فطرانے کی ادائيگي فقیر کے لیے زيادہ نفع مند ہے اوروہ اس سے اپنی ضرورت کی اشیاء خرید سکتا ہے ، اورپھر یہ بھی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ خوراک اورغلے کی بجائے کسی اورچيز کا ضروت مند ہو پھر جب وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے غلہ فروخت کرے گا تواسے کم قیمت پر فروخت کرے گا جس میں اسے نقصان ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ : اس لیے ک فقراء اور مساکین کی باقی دوسری ضروریات مثلا لباس اور رہا‏ئش وغیرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسرے مصادر موجود ہيں مثلا عمومی صدقہ وخیرات اورزکاۃ کا مال اورھبہ وغیرہ تواس لیے ہم معاملات کو اس کی شرعی نصاب میں ہی رکھیں اورشارع نے جس چیزکی تحدید کردی ہے اس کا التزام کریں اورفطرانہ میں شارع نے غلہ اورخوراک کی تحدید کی ہے کہ ایک صاع غلہ ادا کیاجائے جومساکین کی خوراک ہے ۔

لھذا اگرہم مسکین اورفقیر کا مقامی غذا میں سے ہی فطرانہ ادا کریں گے تووہ اس میں سےکھائے گا اوراس سے جلد یا بدیر مستفید ہوگا ، اس لیے کہ یہ اسی چيز میں سے جواصل میں وہ استعمال کرتا ہے ۔

تواس بنا پر فطرانہ میں  غلہ کے علاوہ اس کی قیمت اورمال ادا کرنا جائز نہيں جس سے وہ اپنا قرض ادا کرے یا کسی مريض کے آپریشن کی فیس ادا کرسکے یا کسی طالب علم کی پڑھائي کی قسط ادا کرسکے یا اس کے علاوہ کچھ اور اس لیے کہ ایسی اشیاء کے اوربھی مصادر پائے جاتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان بھی کیا جاچکا ہے ۔

فطرانے کی ادائيگي کا وقت :

-  فطرانہ نماز عید کی ادائيگي سے قبل ادا کیا جائے گا جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ فطرانہ نماز کے لیے نکلنے سے قبل ادا کیا جائے ۔ دیکھیں صحیح بخاری حديث نمبر ( 1407 ) ۔

فطرانہ کی ادائيگي کے لیے ایک  وقت تواستحاب کا ہے اورایک وقت جواز کا ۔

استحباب کا وقت یہ ہے کہ مندرجہ بالا حديث کے مطابق اسے نماز عید سے قبل عید والے دن ادا کرنا مستحب ہوگا ۔

اور اسی لیے عید الفطر کی نماز میں کچھ تاخیر کی جاتی ہے تا کہ اس کی ادائيگي کے وقت میں وسعت مل سکے اورعید کے لیے جانے سے قبل کچھ کھا پی کرجائے ۔

اورجیسے کہ عیدالاضحی میں سنت یہ ہے کہ نماز عید جلدی پڑھی جائے تا کہ لوگ ذبح وقربانی کے لیے جاسکیں اورذبح کے بعد اسے کھائيں ۔

اورفطرانہ کی ادائيگي کا وقت جواز عید سے ایک یا دو روز قبل ہے یعنی ایک یا دو روز فطرانہ کی ادائيگي کرلینی چاہیے ۔

صحیح بخاری میں ہے کہ نافع رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں کہ ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما ہر چھوٹے اوربڑے کا فطرانہ ادا کرتے تھے ، حتی کہ واپنے چھوٹے بچے کا بھی ادا کرتے اور جوان کے پاس ( بطور مہمان ) آتے ان کا فطرانہ بھی ادا کرتے تھے ، اورعید سے ایک یا دو روز قبل فطرانہ ادا کیا کرتے تھے ۔

اور ان کے پاس آنے والوں کا معنی یہ ہے کہ ان کے پاس جو لوگ خلیفہ کی جانب سے مقرر کردہ لوگ فطرانہ لینے کے لیے آتے ان کا فطرانہ بھی ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہ ہی ادا کیاکرتے تھے ۔

نافع ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ وہ فطرانہ جمع کرنے شخص کے پاس نماز عید سے دو یا تین روز قبل فطرانہ بھیج دیا کرتے تے ۔

دیکھیں : المدونۃ  جلد اول باب تعجیل الزکاۃ قبل حلولھا ۔

فطرانہ کی ادائيگي نماز عید کےبعد تک مؤخر کرنا مکروہ ہے ، اوربعض توکہتے ہیں کہ ایسا کرناحرام ہے اورقضاء ہوگی اس کا مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے :

جس نے نماز عید سے قبل فطرانہ ادا کیا اس کا فطرانہ قبول ہے ، اورجس نے نماز عید کے بعد فطرانہ ادا کیا تویہ عام صدقہ وخیرات ہی ہے ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1371 ) ۔

ابوداود کی شرح عون المعبود میں ہے کہ :

ظاہر تویہی ہے کہ جس نے بھی نماز عید کے بعد فطرانہ ادا کیا وہ فطرانہ ادا نہ کرنے والے جیسا ہی ہے  ، کیونکہ واجب کردہ فطرانہ کی عدم ادائيگي میں دونوں ہی شریک ہیں  ، اوراکثر علماء کرام نے تو یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ نما‏زعید سے قبل فطرانے کی ادائيگي توصرف مستحب ہے ، اوروہ بالجزم یہ کہتے ہیں کہ نما‏ز عید کے دن کے آخر تک اس کی ادائیگي کرنے سے کفائت ہوجاتی ہے  ۔

لیکن حدیث ان کا رد کرتی ہے ، اورعیدالفطر کے روز سے بھی فطرانے کی ادائيگي کو لیٹ کرنے کے بارہ میں ابن ارسلان کہتےہيں : متفقہ طور پر ایسا کرنا حرام ہے اس لیے کہ یہ زکاۃ ہے لھذا اس کی تاخیرمیں گناہ کا ہونا ضروری ہوا جس طرح کہ اگر نماز کی ادائيگي وقت میں نہ کی جائے اوراسے لیٹ کردیا جائے تواس میں گناہ ہوتا ہے ۔

لھذا فطرانہ بغیر کسی شرعی عذر کے وقت سے لیٹ کرنا حرام ہے کیونکہ اس میں معنی اورمقصود فوت ہوجاتا ہے جو کہ عید کے روز فقراء ومساکین کو خوشی اورسرور کے دن میں سوال کرنے سے مستغنی کرنا ہے ، لھذا اگر اس نے بغیر کسی عذر کے فطرانے کی ادائيگي لیٹ کردی تووہ نافرمان ہے اوراس قضاء بھی ادا کرے گا ۔

اوریہ بھی ضروری ہے کہ اپنی یا فطرانہ کی ادائيگي سپرد کیے جانےوالے کی طرف سے فطرانہ مستحقین تک وقت کے اندر اندر نما‏ز عید سے قبل پہنچ جائے ، لھذا اگر وہ کسی شخص کوفطرانہ ادا کرنا چاہے اور وہ اسے نہ ملے اور نہ ہی کوئي اس تک پہنچانے والا وکیل ہی مل سکے اوراسے یہ خدشہ ہو کہ ادائيگي کا وقت نکل جائے گا تواسےکسی اورمستحق شخص کوفطرانہ ادا کردینا چاہیے  اوروقت سے تاخیر نہ کرے ۔

اورجب کوئي شخص کسی معین شخص کو فطرانہ دنیا چاہے اوراسے یہ خدشہ ہو کہ وہ ادائيگي کے وقت میں نہیں مل سکے گا تواسے چاہیے کہ وہ کسی اوراس سے لینے کا کہہ دے یا وہ دینے والے کو ہی وکیل بنادے لھذا جب ادائيگي کا وقت آئے تودینے والے کو چاہیے کہ فطرانہ ایک تھیلے میں علیحدہ کرکے رکھ لے اورجب تک مستحق نہيں آتا وہ اس کے پاس ہی امانت رہے گي ۔

اورجب فطرانہ ادا کرنے والے شخص نے کسی اور شخص کو اپنی طرف سے ادائگي کا وکیل بنایا تو وہ اس سے بری الذمہ نہيں ہوجاتا جب تک کہ وہ اس بات کی تحقیق نہ کرلے کہ حقیقتا وکیل نے فطرانہ ادا کردیا ہے کہ نہیں ۔

دیکھیں مجالس شھر رمضان : احکام زکاۃ الفطر للشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی  ۔

فطرانہ کسے ادا کیا جائے ؟

فطرانہ بھی انہیں آٹھ مصاریف میں تقسیم کیا جائے گا جن میں زکاۃ تقسیم کی جاتی ہے ، جمہور علماء کرام کا قول یہی ہے ۔

مالکیہ اورامام احمد کی ایک روایت اورابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یہ اختیار کیا ہے کہ فطرانہ فقراء اور مساکین کے ساتھ خاص ہے ۔

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : فطرانہ بھی انہیں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں مال کی زکاۃ تقسیم ہوتی ہے اس میں کسی اورپر کفائت نہيں ہوگی ۔۔۔ فطرانہ غرباء ومساکین ، اورغلام جومکاتب ہوں اور آزادی حاصل کرنےوالےہوں اورفی سبیل اللہ اورمسافروں میں تقسیم کیا جائے گا ۔ دیکھیں کتاب الام باب ضیعۃ زکاۃ الفطر قبل قسمھا ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضي اللہ تعالی عنہ کو فرمایا:

( آپ انہیں یہ معلوم کروائيں کہ ان پرزکاۃ بھی فرض ہے جوان کے غنی اورخوشحال لوگوں سے لے کر ان کے فقراء پر تقسیم کی جائے گی  ) اس حدیث کے ذکر کرنے کےبعدامام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :

زکاۃ میں سے کچھ بھی کافر کو دینا جائز نہیں چاہے وہ فطرانہ ہویا مال کی زکاۃ ۔۔ امام مالک ، لیث ، اورامام احمد اورابوثور رحمہم اللہ تعالی کہتے ہيں : انہيں ( یعنی کفار کو ) ادا نہيں کی جائے گي ۔

زکاۃ کے مستحق فقراء اوروہ مقروض لوگ ہیں جواپنے قرضے ادا کرنے کی استطاعت نہيں رکھتے ، یا پھر ان کی تنخواہ مہینہ کے آخر تک پوری نہيں آتی ، تویہ لوگ مسکین اورمحتاج وضرورت مند ہونگے انہيں ان کی ضرورت کے حساب سے زکاۃ ادا کی جائے گي ۔

اورفطرانہ ادا کرنے والے شخص کے لیے جسےادا کیا گیا ہو ادا کردہ چيز کو خریدنے کی اجازت نہيں ۔ دیکھیں : فتاوی الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی ۔

فطرانا نکالنا اوراس کی تقسیم :

افضل اور بہتر تو یہ ہے کہ انسان خود ہی اسے تقسیم کرے ، امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

فطرانہ کوکسی دوسرے کے پاس جمع کروانے خود ہی تقسیم کرنا اختیار کیا گيا ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

امام شافعی نے المختصر میں کہا ہے کہ : جس پر مال کی زکاۃ لگتی ہے فطرانہ بھی اسے ہی دیا جائے گا اورمجھے یہ زيادہ پسند ہے کہ فطرانہ ان رشتہ دار غرباء ومساکین کو ادا کیا جائے جن کا اس پر کسی بھی حال میں نفقہ واجب نہيں ہوتا ۔

امام شافعی کہتے ہیں ، اگر توکسی نے فطرانہ کسی جمع کرنے والے ‎شخص کے پاس جمع کروا دیا توانشاءاللہ  ادا ہو جائے گا ۔۔ اورافضل اور بہتر یہ ہے کہ وہ فطرانہ خود تقسیم کرے ، اوراگر وہ امام یا کوشش کرنے والے یا فطرانہ جمع کرنے شخص کوادا کردے اوراسے تقسیم کرنے کی اجازت دے تو یہ ادا ہوجائے گا ، لیکن ان سب میں سے اچھااوربہتر تو یہی ہے کہ خود ہی فطرانہ تقسیم کرے ۔  دیکھیں : المجموع جلدنمبر ( 6 ) ۔

اور فطرانہ کسی ثقہ اورامانت دار شخص کے سپرد کرنا جائز ہے کہ وہ مستحقین تک پہنچا دے ، لیکن اگر ثقہ نہيں تو پھر ایسا کرنا صحیح نہيں ہے ، عبداللہ بن مؤمل رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ ایک شخص ابن ابی ملیکہ کو کہہ رہا تھا :

مجھے فلاں شخص نے یہ کہا کہ یہ فطرانہ مسجد میں دے دو ، توابن ابی ملیکہ اسے کہنے لگے : اس گدھے نے تجھے صحیح فتوی نہيں دیا ، ( یعنی توخود ہی اسے تقسیم کردے ، کیونکہ ابن ھشام ( یعی مسجد میں جمع کرنے والا ) اپنے پہرے داروں اور جسے چاہے دیتا پھرے گا ( یعنی غیر مستحق لوگوں کو دیتا رہے گا ) ۔

دیکھیں کتاب الام : باب ضیعۃ زکاۃ الفطر قبل قسمھا ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ایک صاع کئي لوگوں کودیا جاسکتا ہے لیکن صحیح اوربہتر یہ ہے کہ ایک کو دیا جائے ۔

امام مالک رحمہ اللہ کاکہنا ہے :  اپنا اوراپنے اہل وعیال کا فطرانہ ایک ہی شخص کو دینے میں کوئي حرج نہيں ہے ۔ دیکھیں المدونۃ جلداول باب قسم زکاۃ  الفطر ۔

اورجب کسی فقیر کو صاع سے کم فطرانہ دیا جائے تواسے فقیر کو بتا دینا چاہیے اس لیے کہ فقیر شخص کہیں اسے اپنی طرف سے فطرانہ میں ادا نہ کر دے ۔

فقیر کے لیے جائز ہے کہ اگر اس نے کسی شخص سے فطرانہ حاصل کیا اوروہ اس کی ضرورت سے زائد ہو تووہ اپنی طرف یا پھر اپنے اہل عیال کی طرف سے فطرانہ میں ادا کردے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ جب اسے علم ہو کہ یہ فطرانہ پورا اورکافی ہے ۔

فطرانہ ادا کرنے کی جگہ :

   ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

فطرانہ کو اسی علاقے اورشہر میں تقسیم کیا جائے گا جہاں وہ رہائش پذیر ہواور اس پر فطرانہ واجب ہوجائے ، چاہے وہ اس ملک یا شہر کا باشندہ ہو یا نہ ہو ، اس لیے کہ فطرانے کے وجوب کا سبب ہے اوراسے اس علاقے میں تقسیم کیا جائے گا جو اس کے وجوب کا سبب بنا ہے ۔

دیکھیں المغنی لابن قدامہ جلد دوم فصل اذا کان المزکی فی بلد ومالہ کی بلد ۔

امام مالک کی فقہ مدونہ میں ہے کہ : میں نے کہا کہ ایک افریقی اگر عید الفطر کے روز مصر میں ہو توامام مالک کا اس میں قول کیا ہےکہ وہ فطرانہ کہاں ادا کرے گا ؟

وہ کہنے لگے امام مالک رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ : جہاں وہ ہے وہی فطرانہ ادا کرے گا ، امام مالک رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ : اگر اس کے اہل وعیال نے افریقہ میں اس کا فطرانہ ادا کردیا تو ادا ہوجائے گا ( ان کی افریقہ کی اصطلاح آج کے کلمہ افریقہ سے مختلف ہے ) دیکھیں المدونۃ جلد اول باب فی اخراج المسافر زکاۃ الفطر ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب سے اعمال صالحہ قبول فرمائے اورہمیں صالحین کے ساتھ ملائے ، اللہ تعالی امیوں کے نبی اوران کی آل اورصحابہ کرام پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔

فطرانہ کے احکام کےبارہ میں مزید تفصیلات کے لیے آپ اسی ویب سائٹ پر فطرانہ یا زکاۃ فطر کی قسم کا مطالعہ ضرور کریں ۔