جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

استخارہ كيا ليكن كچھ بھى محسوس نہيں ہوا

تاریخ اشاعت : 24-02-2006

مشاہدات : 10804

سوال

آپ شادى كرنے والے مرد و عورت كو كيا نصيحت كرتے ہيں، ان دونوں نے استخارہ كيا اور صرف عورت كو خواب نظر آيا ہے مرد كو نہيں، عورت نے ديكھا كہ وہ اور اس كا خاوند سعادت كى زندگى بسر كر رہے ہيں، اور اللہ تعالى كہتا ہے كہ دونوں كے ليے يہى صحيح اختيار ہے، ليكن مرد نے كوئى بھى علامت يا احساس يا خواب نہيں ديكھى اسے كيا كرنا ہو گا؟
ان دونوں كيا كرنا چاہيے، اور استخارہ كے ليے كتنى مدت مقرر ہے ؟ بعض كہتے ہيں كہ تين دن اور بعض سات دن تك استخارہ كرنے كا كہتے ہيں، آپ كو اللہ تعالى جزائے خير دے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

استخارہ كرنے كى دليل مندرجہ ذيل بخارى وغيرہ كى حديث جو جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے ميں پائى جاتى ہے، اس حديث كى شرح اور حديث كے فوائد آپ سوال نمبر ( 2217 ) اور ( 11981 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

اور بعض لوگوں كا يہ كہنا كہ: " پھر اسے وہ كام كرنا چاہيے جس پر اس كا دل راضى اور شرح صدر ہو"

ابن سنى كى روايت كردہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب آپ كو كوئى كام درپيش ہو تو سات بار اپنے رب سے استخارہ كرو پھر اسے ديكھو جو تمہارے دل ميں آئے كيونكہ اسى ميں خير ہے"

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس كى سند غريب ہے، اس ميں ايسے راوي ہيں جنہيں ميں نہيں جانتا. اھـ

ديكھيں: الاذكار للنووى صفحہ نمبر ( 132 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر يہ ثابت ہو جائے تو پھر قابل اعتماد يہى ہے، ليكن اس كى سند بہت ہى كمزور ہے. اھـ

ديكھيں: فتح البارى ( 11 / 223 ).

حافظ عراقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس ميں ايسا راوى ہے جو شديد ضعف سے معروف ہے، اور وہ ابراہيم بن البراء ہے..

تو اس بنا پر يہ حديث بہت ہى ضعيف ہے. اھـ

ديكھيں: الفتوحات الربانيۃ ( 3 / 357 ).

اور صحيح اور درست يہ ہے كہ:

معاملے ميں آسانى ـ تقدير اور دعاء كى قبوليت كے بعد ـ اللہ تعالى كى جانب سے ہے، جو كہ كام كرنے كى بہترى كى علامت ہے، اور اس كام كے موانع كا پايا جانا اور معاملے ميں آسانى پيدا نہ ہونا اس بات كى دليل ہے كہ اللہ تعالى نے اپنے بندے سے اس كام كو دور كر ديا ہے.

اور جب ہم جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث استخارہ ميں غور اور تدبر كرينگے تو يہى معنى بالكل واضح ہو گا:

حديث ميں ہے:

" فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ هَذَا الأَمْرَ ثُمَّ تُسَمِّيهِ بِعَيْنِهِ خَيْرًا لِي فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ قَالَ أَوْ فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ اللَّهُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْنِي عَنْهُ [ واصرفه عني ] وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ "

الہى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام اس كام كا نام لے ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ليے ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے ميرے مقدر ميں كر اور آسان كر دے، پھر اس ميں ميرے ليے بركت عطا فرما، اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے اور ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے برا ہے تو اس كام كو مجھ سے اور مجھے اس سے پھير دے اور ميرے ليے بھلائى مہيا كر جہاں بھى ہو، پھر مجھے اس كے ساتھ راضى كردے.

ابن علان ـ انس رضى اللہ تعالى عنہ والى حديث كا ضعف بيان كرنے كے بعد ـ كہتے ہيں:

اور اس بنا پر يہ كہا جا سكتا ہے كہ: بہتر يہ ہے كہ اس نے جو ارادہ كيا ہے وہ استخارہ كرنے كے بعد اسے سرانجام دے ( يعنى: اگر وہ اس ميں شرح صدر محسوس نہ بھى كرے ) كيونكہ اس ( يعنى نماز استخارہ ) كے بعد واقع ہونے والا ہى بہتر ہے. .

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

حافظ زين الدين عراقى كا ( استخارہ كرنے كے بعد كام كرنے ميں ) كہنا ہے: " اس نے جو بھى كيا اسى ميں خير و بھلائى ہے، اس كى تائييد دوسرى حديث جو عبد اللہ بن مسعود سے مروى ہے ميں موجود الفاظ" ثم يعزم " پھر وہ عزم كرے كے الفاظ سے ہوتى ہے. اھـ عراقى كى كلام ختم ہوئى.

ميں كہتا ہوں: ( يعنى حافظ ابن حجر ) پيچھے جو كچھ ميں نے بيان كيا ہے كہ اس ( يعنى ثم يعزم ) كے الفاظ بيان كرنے والا راوى ضعيف ہے، ليكن يہ اس حديث كے راوى ( يعنى پھر جو تمہارے دل ميں آئے اسے ديكھو ) والى حديث كے رواى سے كچھ بہتر حالت ميں ہے. اھـ ابن حجر كى كلام ختم ہوئى.

ديكھيں: الفتوحات الربانيۃ ( 3 / 355 ).

اور لوگوں ميں منتشر خرافات ميں استخارہ كے بعد سونا بھى شامل ہے كہ خواب ميں جو خير اور شرح صدر ديكھيں اس كا معنى ہے كہ آپ كا يہ كام بہتر ہے اور اگر نہ ديكھيں تو اس ميں بہترى نہيں ( اور سائل كا اس قول" اسے پيغام ملا " سے بھى يہى مراد ہے، ہمارے علم كے مطابق تو اس كى كوئى صحيح دليل نہيں ہے.

اوپر جو كچھ بيان ہوا اس كا معنى يہ نہيں كہ شرح صدر علامات ميں شامل نہيں، ليكن اسے كسى كام كى بہترى كے ليے قطعى اور اكيلى يہى علامت ہى نہيں بنا لينا چاہيے، كيونكہ انسان بہت سے ايسے معاملات ميں استخارہ كرتا ہے جو اسے پسند ہوتے ہيں اور اس پر اس كا شرح صدر بھى ہوتا ہے.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى شرح صدر كے مسئلہ ميں كہتے ہيں:

جب وہ اللہ سے استخارہ كرے تو اس كے ليے جو شرح صدر ہو اور امور ميں سے جو ميسر ہو تو وہى اللہ تعالى نے اس كے اختيار كيا ہے. اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 539 ).

تو اس طرح فرق يہ ہے كہ: اكيلے شرح صدر علامت ہونا، اور يہ بھى ايك علامت ہے.

اور استخارہ كے ليے كوئى مدت مقرر نہيں، ايك بار سے زيادہ بار بھى استخارہ كرنا جائز ہے، اور اس كى تعداد بھى مكرر نہيں، نماز كے ليے سلام پھيرنے سے قبل بھى دعاء كرنا جائز ہے، اور سلام كے بعد بھى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد