الحمد للہ.
اس سوال کی دو شقیں ہیں ایک تو اعتراض ہے اور دوسرا صحیح راہ کی تلاش ہے۔
تو اعتراض یہ ہے کہ جو کہ سائل کی جہالت کی دلیل ہے بیشک اللہ سبحانہ وتعالی کی حکمت اس سے بڑھ کر ہے کہ وہ ہماری عقلوں تک پہنچے اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں۔
"اور وہ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ جواب دے دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے"
تو یہ روح جو کہ ہمارے پہلووں میں ہے اور ہماری زندگی کا مادہ ہے اسے ہم نہیں جانتے اور سب فلسفی اور دیکھنے والے اور اسکی حدود اور کیفیت میں کلام کرنے والے سب عاجز ہو چکے ہیں تو جب یہ روح ہمارے سب سے قریب ہے اسکے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے سوائے جو قرآن اور سنت نے ہمارے لئے بیان کیا ہے تو پھر اس کے متعلق کیا خیال ہے جو کہ اس سے دور اور علیحدہ ہے؟
تو اللہ عزوجل سب سے اعظم اور جلال والا اور قدرت والا اور ہر امر کو محکم کرنے اور صحیح کرنے والا ہے تو ہم پر ضروری ہے کہ ہم اسکے فیصلوں کو مکمل طور پر تسلیم کریں۔ چاہے وہ قضاء وفیصلہ کوئی ہو یا قدری ہو کہ ہم اس سبحان وتعالی کی حکمت کی غرض وغایت کو پانے سے قاصر ہیں تو سوال کی اس شق کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی زیادہ علم والا اور اعظم اور قدرت والا اور محکم فیصلے کرنے والا ہے۔
اور سوال کی دوسری شق یہ راہ کی تلاش ہے تو ہم سائل کو یہ کہتے ہیں۔
مومن کو آزمایا جاتا ہے اور اللہ تعالی کے اسے اس ابتلاء میں ڈالنے اور تکلیف دینے کے دوعظیم فائدے ہیں۔
پہلا : فائدہ: اس آدمی کا ایمان سچا اور پختہ ہے یا کہ اسکا ایمان متزلزل ہے۔ تو جو اپنے ایمان میں سچا ہے وہ تو اس ابتلاء پر اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر صبر کرتا اور اللہ تعالی سے ثواب کی نیت کرتا ہے تو اس وقت اس پر یہ معاملہ آسان ہوجاتا ہے۔ کسی عابدہ عورت سے بیان کیا جاتا ہے کہ اسکی انگلی کٹ گئ یا زخم آیا تو اس نے تکلیف محسوس نہیں کی اور نہ ہی بے قراری ظاہر کی تو اسے اسکے بارہ میں کہا گیا تو اسنے جواب دیا۔ کہ مجھے اس کے اجر کی مٹھاس نے اسکے صبر کی کڑواہٹ بھلادی۔ تو مومن آدمی اللہ تعالی سے اجر کی نیت کرے اور اسے مکمل طور پر تسلیم کرے۔ تو یہ ایک فائدہ ہے۔
دوسرا فائدہ: اللہ تعالی نے صبر کرنے والوں کی بہت زیادہ تعریف کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ انکے ساتھ ہے اور انہیں بغیر حساب کے اجر دے گا۔ اور ایک ایسا درجہ ہے جو کہ صرف اسے ملتا ہے جو کہ ان امور میں مبتلا کیا جائے جن میں صبر کیا جاتا ہے تو اگر وہ ان پر صبر کرے تو اس بلند درجے کو حاصل کرے گا جس میں اجر عظیم ہے۔
تو اللہ تعالی کا مومن کو تکلیف دہ امور میں مبتلا کرنے کا سبب یہ ہے کہ وہ صابرین کے درجہ کو حاصل کرلیں۔ اور اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار کی اتنی تیزی ہوتی تھی جتنا کہ دو آدمیوں کو ہوتا ہے اور حالت نزع میں اسکی نزع میں اسکی شدت اور زیادہ ہوگئ تھی۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایمان اور تقوی اور خشیت الہی کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ مومن اور متقی اور اللہ تعالی سے ڈرنے والے تھے۔ تو سب کچھ اس لئے تھا کہ انکے صبر کا درجہ مکمل ہوجائے بیشک سب سے زیادہ صابر تھے۔
تو اس سے آپ کے سامنے یہ واضح ہوگیا ہوگا کہ اللہ تعالی مومنوں کو اس طرح کے مصائب میں کیوں مبتلا کرتا ہے۔ اور اسکی کیا حکمت ہے۔
اور رہا یہ معاملہ کہ فاسقوں فاجروں اور نافرمانوں اور کفار پر عافیت اور رزق کی فراوانی کیوں ہوتی ہے تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے انکے لئے ڈھیل ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا۔
(بیشک مومن کے لئے جیل خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے) تو انہیں یہ اچھی اشیاء دنیاوی زندگی میں جلد دیدی جاتی ہیں اور قیامت کے دن وہ اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔
فرمان باری تعالی ہے۔
"اور جس دن جہنم کے سرے پر لائے جائیں گے (کہا جائے گا) تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگی میں ہی برباد کردیں اور ان سے فائدے اٹھاچکے پس آج تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اسکے باعث کہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے اور اسکے باعث بھی کہ تم حکم عدولی کیا کرتے تھے"
تو حاصل یہ ہے کہ یہ دنیا کافروں کے لئے ہے اس میں انہیں ڈھیل دی جارہی ہے اور جب وہ اس دنیا جسمیں انہیں نعمتیں ملتی رہیں سے آخرت میں منتقل ہونگے تو عذاب پائيں گے اور اس سے اللہ کی پناہ تو یہ عذاب ان پر بہت سخت ہوگا کیونکہ وہ عذاب میں سزا اور عقوبت پائیں گے اور اس لئے بھی کہ انکی دنیا بھی ختم ہوگئ جس میں وہ نعمتیں اور خوشیاں حاصل کرتے تھے۔
اور یہ تیسرا فائدہ بھی ممکن ہے کہ اسے دونوں فائدوں کے ساتھ اضافہ کردیا جائے۔ کہ مومن جو بیماریاں اور تکالیف پاتا ہے تو جب وہ اس دنیا سے اچھے دار آخرت کی طرف منتقل ہوگا تو اسکا یہ ایک ایسے اذیت ناک اور المناک دار جو کہ دنیا ہے سے ایک اچھے اور فرحت والی آخرت کی طرف منتقل ہونا ہے جس سے اسے فرحت اور خوشی حاصل ہوگی کیونکہ اسے وہ نعمتیں دگنی سے بھی زیادہ ملیں گی اور اذیت اور مصائب کا دور ختم ہونے کی بھی خوشی ہوگی- .