جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

تنخواہ حاصل كرنے والے ٹيلى فون كے ملازم كو انعام و اكرام دينا

تاریخ اشاعت : 17-04-2011

مشاہدات : 6054

سوال

كام كرنے سے فارغ ہونے والے كو انعام و اكرام دينے كا حكم كيا ہے مثلا ٹيلى فون كا ملازم ٹيلى فون صحيح كر لے تو كيا ميرے ليے اسے بطور انعام كچھ دوں يا نہ ، يہ علم ميں رہے كہ وہ مقرر كردہ تنخواہ ليتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو ملازم تنخواہ ليتا ہو آپ كے ليے جائز نہيں كہ اسے اس كے كام كى بنا پر كوئى ہديہ يا انعام ديں، اس كى دليل بخارى اور مسلم شريف كى درج ذيل حديث ہے:

امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو حميد ساعدى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث بيان كي ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بنو اسد كے ايك شخص جس كا نام ابن اللتبيۃ تھا كو زكاۃ اكٹھى كرنے كے ليے بھيجا، جب وہ زكاۃ اكٹھى كر كے لايا تو كہنے لگا: يہ تمہارا ہے، اور يہ مجھے ہديہ ديا گيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر تشريف لائے اور اللہ تعالى كى حمد و ثنا بيان كرنے كے بعد فرمايا:

" اس اہلكار كى حالت كيا ہے جسے ہم كسى كام كے ليے روانہ كرتے ہيں تو وہ آكر كہتا ہے: يہ آپ كا ہے، اور يہ ميرا، تو وہ اپنے ماں باپ كے گھر ہى كيوں نہ بيٹھا رہا اور انتظار كرے كہ آيا اسے ہديہ ديا جاتا ہے يا نہيں ؟

اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے وہ جو كچھ بھى لائے گا روز قيامت اسے اپنى گردن پر اٹھائے ہوئے ہوگا، اگر وہ اونٹ ہے تو آواز نكال رہا ہوگا، يا گائے ہو گى تو وہ بھائيں بھائيں كر رہى ہو گى، يا پھر بكرى ہو گى تو وہ مميا رہى ہوگى "

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے تو ہم نے آپ كى بغلوں كى سفيدى ديكھى، اور فرمايا: خبردار رہو، ميں نے پہنچا ديا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7174 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1832 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ ملازمين كو ہديہ دينا حرام ہے، اسى ليے حديث ميں اس كى سزا اور جو چيز اسے ہديہ دى گئى ہو وہ روز قيامت اٹھا كر لائےگا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسى حديث ميں ملازم كے ليے ہديہ كى حرمت كا سبب بھى بيان فرمايا ہے كہ يہ اس كى ذمہ دارى كى بنا پر ہے، غير ملازم كے ہديہ كے بخلاف كيونكہ وہ مستحب ہے اور ملازم وغيرہ جو ہديہ كے نام سے ليتا ہے اس كا حكم يہ ہے كہ وہ يا تو ہديہ دينے والے كو واپس كرے، اور اگر ايسا كرنا مشكل ہو تو پھر وہ بيت المال ميں جمع كريا جائيگا "

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 6 / 462 ).

اور عبد اللہ بن بريدہ اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس شخص كو بھى ہم نے كسى كام پر لگايا اور اسے ہم نے اس پر مال بھى ديا تو اس كے بعد وہ جو كچھ لےگا وہ خيانت ہو گى "

حديث كا معنى يہ ہے كہ:

جس شخص كو بھى ہم نے كسى كام پر مقرر كيا اور اسے اس كام كى اجرت ميں مال بھى ديا، تو اس كے بعد اس شخص كے ليے كوئى چيز لينى حلال نہيں، اور اگر وہ ليتا ہے تو وہ خيانت ہو گى، اور غلول مال غنيمت اور مسلمانوں كے بيت المال ميں خيانت كو كہا جاتا ہے.

سنن ابو داود حديث ( 2943 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ان دونوں حديثوں ميں يہ بيان ہوا ہے كہ جو شخص ملازم ہو اور اپنے محكمہ اور ادارہ سے تنخواہ وصول كرتا ہو، اس كے ليے اپنے كام كى بنا پر كسى اور سے مال يا ہديہ قبول كرنا جائز نہيں، اور اگر وہ ايسا كرتا ہے تو وہ مال غنيمت ميں خيانت جيسے كام كا مرتكب ہو گا.

شيخ محمد صالح عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ہم سركارى ملازم ہيں اور رمضان المبارك ميں سركارى افسران كى جانب سے زكاۃ اور انعام و اكرام آتا ہے، اور ہم زكاۃ اور انعام و اكرام كو عليحدہ اور فرق نہيں كر سكتے كيونكہ ہميں اس كا علم نہيں ہوتا، سوال يہ ہے كہ:

اگر ہم يہ مال ليتے ہيں حالانكہ ہميں اس كى ضرورت نہيں اس سے مستغنى ہيں، يہ مال لے كر ہم بيواؤوں اور يتيموں اور فقراء پر خرچ كر ديں تو اس كا حكم كيا ہو گا، اور اگر اس ميں سے كچھ ہم نے خود اور اپنے اہل و عيال كو كھلا ديا تو كيا حكم ہو گا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" ملازمين كے ہديہ جات غلول يعنى مال غنيمت اور بيت المال ميں خيانت شمار ہوتے ہيں، يعنى جب سركارى ملازم ہو اور اسے وہ شخص ہديہ دے جس كا اس معاملہ كے ساتھ تعلق ہے تو يہ خيانت ميں سے ہے، اور اس كے ليے اس سے كوئى چيز لينى جائز نہيں، چاہے وہ راضى و خوشى دے رہا ہو.

اس كى مثال يہ ہے كہ: ہم فرض كريں كہ آپ كا كسى محكمہ ميں كوئى كام تھا اور آپ نے اس محمكہ كے افسر اور مدير يا كسى ملازم كو ہديہ ديا تو اس كے ليے يہ ہديہ قبول كرنا حرام ہے؛ كيونكہ حديث ميں ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابن اللتبيۃ كو زكاۃ اكٹھى كرنے كے ليے بھيجا، جب وہ زكاۃ اكٹھى كر كے لايا تو كہنے لگا: يہ تمہارا ہے، اور يہ مجھے ہديہ ديا گيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر تشريف لائے اور اللہ تعالى كى حمد و ثنا بيان كرنے كے بعد فرمايا:

" تم ميں سے اس شخص كى حالت كيا ہے جسے ہم كسى كام كے ليے روانہ كرتے ہيں تو وہ آكر كہتا ہے: يہ آپ كا ہے، اور يہ ميرا، تو وہ اپنے ماں باپ كے گھر ہى كيوں نہ بيٹھا رہا اور انتظار كرے كہ آيا اسے ہديہ ديا جاتا ہے يا نہيں ؟

تو كسى بھى سركارى محكمہ كے كسى ملازم كے ليے اپنے اس معاملہ ميں جو اس محكمہ كے متعلق ہو كوئى بھى ہديہ قبول كرنا حلال نہيں، اگر ہم يہ دروازہ كھول ديں اور يہ كہيں كہ: ملازم كے ليے ہديہ قبول كرنا جائز ہے تو ہم رشوت كا دروازہ كھول دينگے، اور رشوت كا معاملہ بہت ہى زيادہ خطرناك ہے، اور يہ كبيرہ گناہوں ميں شمار ہوتى ہے.

اس ليے سركارى ملازمين پر واجب ہوتا ہے كہ اگر انہيں ہديہ يا صدقہ يا زكاۃ كے نام سے كچھ ديا جائے تو وہ قبول نہ كريں، اور خاص كر جب وہ غنى اور مالدار ہوں، كيونكہ جيسا كہ معلوم ہے كہ اس حالت ميں تو ان كے ليے زكاۃ حلال ہى نہيں ہے "

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 18 ) سوال نمبر ( 270 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب