سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

مصیبت زدہ کو کیسے معلوم ہوگا کہ پیش آمدہ مصیبت سزا ہے یا بلندیِ درجات کا باعث؟

سوال

اگر مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ مصیبت اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے یا اس کے درجات میں بلندی کیلیے ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کتاب و سنت میں مصیبتوں اور پریشانیوں کے -اللہ  تعالی کی حکمت اور قضا و قدر کے علاوہ-دو براہ راست اسباب ہیں:

1- انسان کی طرف سے کیے جانے والے گناہ اور نافرمانیاں، چاہے یہ گناہ کفر کی حد تک ہوں یا پھر عام گناہوں یا کبیرہ گناہوں سے تعلق رکھتے ہوں، چنانچہ جزا اور فوری سزا کے طور پر اللہ تعالی کی طرف سے گناہ گار شخص کو مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
  وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ 
ترجمہ: آپ کو کوئی بھی نقصان پہنچے تو یہ تمہاری اپنی وجہ سے ہے۔[النساء:79]
مفسرین کہتے ہیں: یعنی: آپ کے گناہوں کی وجہ سے ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
 وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ 
ترجمہ: اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے اپنے اعمال  کی وجہ سے ہے، [حالانکہ] اللہ بہت سے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ [ الشورى:30 ]
دیکھیں: "تفسیر القرآن العظیم" (2/363)

اور انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب اللہ تعالی کسی بندے کیساتھ خیر کا ارادہ فرمائے تو دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے، اور اگر کسی بندے کیساتھ برا ارادہ فرمائے تو اسے گناہوں کی سزا دنیا میں نہیں دیتا، تا کہ قیامت کے روز اسے مکمل سزا ملے)
اس روایت کو ترمذی: (2396) نے  روایت کیا ہے اور حسن کہا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے سے اسے "صحیح ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے۔

2- دوسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے صابر اور مؤمن بندے کے درجات بلند کرنا چاہتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی اسے مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تا کہ وہ اللہ تعالی کی آزمائش پر راضی ہو اور صبر کرے ، نتیجے میں اللہ تعالی اسے آخرت میں صابرین کے اجر سے نوازے، اور اپنے ہاں اسے کامیاب لوگوں میں لکھ دے، یہ بات مسلمہ ہے کہ انبیائے کرام اور نیک لوگوں کو بھی آخر دم تک مصیبتوں کا سامنا رہا، اللہ تعالی نے ان کیلیے ان مصیبتوں کو جنتوں میں بلند درجات حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا، یہی وجہ ہے کہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب انسان کیلیے اللہ تعالی کے ہاں کوئی ایسا درجہ مختص ہو جسے پانے کیلیے انسان کے اعمال ناکافی ہو تو اللہ تعالی اس کو جسم، مال، یا اولاد کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے)
ابو داود: (3090) اسے البانی نے سلسلہ صحیحہ : (2599)میں  صحیح کہا ہے۔

اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جتنی آزمائش کڑی ہو گی اجر بھی اتنا ہی عظیم ہوگا، اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کی آزمائش فرماتا ہے، چنانچہ جو اللہ تعالی کی آزمائش پر راضی ہو جائے تو اللہ تعالی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور جو اللہ تعالی کی آزمائش پر ناراضگی کا اظہار کرے اس کیلیے اللہ تعالی کی طرف سے ناراضگی ہوتی ہے)
اس حدیث کو ترمذی : (2396) روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا، نیز شیخ البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ: (146) میں صحیح قرار دیا ہے۔

مصیبتوں میں مبتلا کرنے کے مذکورہ دونوں اسباب عائشہ رضی اللہ عنہا کی درج ذیل حدیث میں یکجا جمع ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کسی بھی مسلمان کو کوئی بھی کانٹا یا اس سے بڑی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے، یا اس کا گناہ مٹا دیتا ہے)
بخاری: (5641) مسلم: (2573)

پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ دونوں اسباب یکجا ہو جاتے ہیں، اور ان کے یکجا ہونے کی مثالیں الگ الگ ہونے سے زیادہ ہیں: جیسے کہ آپ کو عام دیکھنے میں ملے گا کہ: جسے اللہ تعالی کسی مصیبت میں مبتلا فرمائے اور وہ اس پر صبر و شکر کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور جنت میں  درجات بلند کر دیتا ہے ، نیز اسے صابرین کے اجر سے بھی نوازتا ہے۔

بالکل اسی طرح جس شخص کو اللہ تعالی مصیبتوں میں اس لیے مبتلا فرماتا ہے تا کہ وہ جنت میں اپنے لیے مختص درجے تک پہنچ سکے تو اس کے بھی گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، نیز اس مصیبت کو دنیاوی سزا شمار کر لیا جاتا ہے اور آخرت میں اسے مزید سزا نہیں ملے گی، جیسے کہ کچھ انبیائے کرام کیساتھ ایسا ہوا، مثال کے طور پر: آدم علیہ السلام اور یونس علیہ السلام، کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو جنت سے بے دخل کیا، اور یونس بن متی علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں مبتلا کیا، تو اللہ تعالی نے دونوں کے درجات اس لیے بلند فرمائے کہ انہوں نے ان پر صبر کیا اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھی، چنانچہ ان کیلیے یہ مصیبت یونس اور آدم علیہماالسلام سے سر زد ہونے والی غلطی کا کفارہ بن گئی۔

آپ کی مزید رہنمائی کیلیے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دنیاوی سزا اخروی سزا سے منسلک ہوتی ہے جدا نہیں ہوتی، نیز مذکورہ دونوں اسباب کا تذکرہ یکجا متعدد صحیح احادیث نبویہ میں موجود ہے، جیسے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن لوگوں کی آزمائش سخت ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انبیائے کرام کی، ان کے بعد جو جس قدر انبیائے کرام کے نقش قدم پر چلنے والا ہوگا انہیں اسی قدر آزمائش میں ڈالا جائے گا، چنانچہ ایک آدمی کو اس کی دینداری کے مطابق ہی آزمایا جاتا ہے، جتنی دینداری ٹھوس ہوگی آزمائش بھی اتنی ہی سخت ہوگی، اور اگر اس کی دینی حالت پتلی ہوگی تو اس کی آزمائش بھی  کم ہوگی، حتی کہ آزمائشیں انسان کے گناہوں کو مکمل طور پر مٹا دیتی ہیں اور انسان زمین پر چلتا پھرتا ہے اور اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا)
ترمذی: (2398) نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا ۔

لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ مذکورہ دونوں اسباب میں سے کوئی ایک سبب دوسرے کی بہ نسبت زیادہ عیاں ہو، اور اس فرق کو مصیبت سے متعلقہ دیگر قرائن اور شواہد کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے:

چنانچہ اگر مصیبت زدہ شخص کافر ہو تو ایسی صورت میں اس کی آزمائش بلندیِ درجات کیلیے نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ قیامت کے دن کافر کی نیکیوں کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی وزن نہیں ہوگا، لیکن اس مصیبت کی وجہ سے دیگر لوگوں کو نصیحت ہو سکتی ہے کہ وہ مصیبت زدہ کافر کو دیکھ کر سیدھے ہو جائیں اور کافر جیسی غلطی خود نہ کریں، بسا اوقات کافر کیلیے پیش آمدہ مصیبت دنیاوی عذاب کا حصہ ہوتی ہے جبکہ آخرت میں ملنے والا عذاب اس کے علاوہ ہوگا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
  أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لا يَعْلَمُ فِي الأرْضِ أَمْ بِظَاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ [33] لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الآخِرَةِ أَشَقُّ وَمَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ 
ترجمہ: [الرعد :33-34]

اور اگر مصیبت زدہ شخص مسلمان لیکن گناہ کر کے دوسروں کو بتلانے والا ہو یا ایسا فاسق ہو جس کے فسق کا سب کو علم ہو تو ایسی صورت میں پیش آمدہ مصیبت گناہ مٹانے کیلیے دی جانے والی جزا اور سزا  زیادہ محسوس ہوتی ہے؛ کیونکہ درجات کی بلندی سے قبل گناہوں کا خاتمہ پہلے کیا جاتا ہے، اور گناہ گار کو درجات کی بلندی سے پہلے گناہوں کی صفائی اور کفارے کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوسری جانب اگر کوئی نیک عبادت گزار مسلمان مصیبت زدہ ہو ، اس شخص نے کبھی اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کی ہو ہمیشہ اللہ تعالی کی بندگی میں مگن رہتا ہو، حمد و شکر زبان پر جاری رہے، اللہ سے لو اور ناتا جوڑ کر رکھے، تو ایسے مسلمان کے متعلق یہی زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ : پیش آمدہ مصیبت  درجات کی بلندی کیلیے ہے۔

جتنے بھی لوگ ہیں یہ زمین پر اللہ تعالی کے گواہ ہیں ، چنانچہ اگر کسی شخص کی نیکی اور تقوی کا علم ہو اور پھر اسے مصیبت زدہ پائیں تو وہ مصیبت پر صبر کرنے کی صورت میں اللہ تعالی کی جانب سے بلندیِ درجات  کی خوشخبری اور نوید سنا سکتے ہیں۔

لیکن اگر مصیبت زدہ شخص نے جزع فزع سے کام لیا تو ایسی صورت میں اس مصیبت کو بلندی ِ درجات کا سبب نہیں سمجھا جائے گا؛ کیونکہ اس شخص نے اللہ تعالی کے فیصلے پر بے صبری اور ناراضگی کا اظہار کر دیا ہے، تو ایسی صورت میں یہ مصیبت جزا اور سزا سے تعلق رکھے گی۔

کچھ نیک لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ: "مصیبتیں اس وقت سزا ہوتی ہیں جب مصیبت آن پڑنے پر بے صبری کا مظاہرہ ہو اور لوگوں کے سامنے شکوی شکایت کی جائے"

جبکہ مصیبت گناہوں کا کفارہ اس وقت بنتی ہے جب مصیبت پڑنے پر شکوی شکایت نہ کی جائے بلکہ صبر کا مظاہرہ کیا جائے، آہ و بکا، اور دیگر احکاماتِ الہیہ کی ادائیگی میں بوجھ محسوس نہ کیا جائے۔

نیز مصیبتیں بلندیِ درجات کا سبب اس وقت بنتی ہیں جب مصیبت پڑنے پر اللہ تعالی کے اس فیصلے کو مکمل رضا مندی  سے قبول کرے، دل مطمئن رہے، اور تقدیری فیصلوں پر افراتفری کا شکار نہ ہو، یہاں تک کہ تقدیری فیصلے ٹل جائیں" انتہی

مذکورہ باتیں حتمی نہیں ہیں بلکہ قرائن و شواہد ہیں انہیں بروئے کار لا کر انسان مصیبتوں اور تکلیفوں کی جانچ پڑتال کر سکتا ہے، لیکن ان کے بارے میں حتمی بات نہیں کی جا سکتی نہ تو اپنے بارے میں اور نہ ہی کسی اور کے بارے میں۔

عین ممکن ہے کہ سابقہ لمبی چوڑی تفصیل سے زیادہ اہم بات یہ ہو کہ:

انسان کیلیے قابل غور و فکر عملی پہلو یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی مصیبت اس وقت تک خیر و برکت کا باعث ہے جب تک مصیبت پر صبر کرے اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھے، اور دنیا کی کوئی بھی مصیبت اس وقت تک شر اور نقصان کا باعث ہے جب تک وہ جزع فزع سے کام لے۔

چنانچہ اگر انسان اپنے آپ کو مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت ڈالے، اللہ تعالی کے فیصلوں پر اظہار رضا مندی کرے تو مصیبت کا سبب علم میں ہو یا  نہ ہو اس سے اُسے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے بلکہ بہتر طریقہ یہی  ہے کہ ہمیشہ اپنے آپ کا محاسبہ کرے، اپنے اندر کی کمی کوتاہی کو تلاش کرے، جہاں خلل پیدا ہوا ہے اس ڈھونڈے کیونکہ ہم سب غلطیوں کے پتلے ہیں، کون ہے جو اللہ تعالی کے بارے میں سستی اور کوتاہی کا شکار نہیں ہے؟  اگر جنگ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی مخالفت کی پاداش میں اللہ تعالی مسلمانوں کو اتنی بڑی تعداد میں مشرکوں کے ہاتھوں شہید کروا سکتا ہے حالانکہ  وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام تھے، انبیائے کرام اور رسولوں کے بعد افضل ترین شخصیتوں کے مالک تھے، تو ایک عام آدمی ہر مصیبت  کے بدلے میں بلندیِ درجات کا خواہش مند کیسے ہو سکتا ہے؟!!

ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ جس وقت سخت اندھیری اور بادلوں کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھتے تو کہتے: "یہ سب میرے گناہوں کی وجہ سے ہے، اگر میں یہاں سے چلا جاؤں تو تمہیں اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا"

اگر ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ کا یہ حال تھا تو ہماری کیا حالت ہونی چاہیے؟!

ان تمام باتوں سے ہٹ کر اہم ترین بات یہ ہے کہ:

انسان اللہ تعالی کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھے، ہر حالت میں  اللہ تعالی کے بارے میں اچھی سوچ ذہن میں لائے، کیونکہ وہی بخشنے والا اور ڈر کا مستحق ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہم پر اپنی رحمت فرمائے اور ہمیں بخش دے، ہمیں کار آمد علم سکھائے، اور مصیبت پڑنے پر ہمیں اجر سے نوازے، بیشک وہی سننے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے۔

مزید کیلیے سوال نمبر: (13205) کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب