جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

مصیبتوں میں مبتلا کرنے کی حکمت

سوال

میں بہت زیادہ سنتا ہوں کہ لوگوں پر مصیبتیں نازل ہونے کی بھی حکمتیں ہوتی ہیں، تو یہ کون کون سی حکمتیں ہو سکتی ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جی ہاں مصیبتوں میں مبتلا کرنے کی کئی حکمتیں ہوتی ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

1-             اللہ رب العالمین کے لیے کامل سر تسلیم خم کر کے بندگی کا اظہار۔

کیونکہ بہت سے لوگ خواہش پرست ہوتے ہیں، اللہ تعالی کی بندگی نہیں کرتے، اگرچہ دعوی یہی کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں، لیکن جیسے ہی انہیں مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے تو وہ فوری طور پر منہ موڑ کر دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں خسارہ اٹھاتے ہیں، اور یہی واضح خسارہ ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ 

 ترجمہ: اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالی کی بندگی دل جمعی کے ساتھ نہیں کرتے، اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچ جائے تو عبادت پر مطمئن ہو جاتے ہیں، اور اگر کوئی آزمائش آ جائے تو الٹے پاؤں لوٹ جاتے ہیں، وہ دنیا میں بھی نامراد ہوئے اور آخرت میں بھی، اور یہی واضح نامرادی ہے۔ [الحج: 11]

2-             آزمائشیں اہل ایمان کو دھرتی کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے ترتیب دینے کے لیے آتی ہیں۔

امام شافعی رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا: ڈٹ جانا، آزمائش میں پڑنا اور اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں سے کون سی چیز زیادہ افضل ہے؟ تو امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: اقتدار مل جانا انبیائے کرام کا درجہ ہے، اور اقتدار ہمیشہ آزمائش کے بعد ہی ملتا ہے، چنانچہ جب آزمائش آتی ہے تو صبر بھی کرنا پڑتا ہے، لہذا جب انسان صبر کرے گا تو اقتدار بھی مل جائے گا۔

3-             گناہوں کا کفارہ

امام ترمذی: (2399) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مومن مرد اور مومن عورت پر جسمانی، اہل خانہ اور دولت سے متعلق مسلسل آزمائشیں آتی رہتی ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اللہ سے ملتے ہیں تو ان پر کوئی بھی گناہ باقی نہیں ہوتا) اس حدیث کو ترمذی: (2399) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ: (2280) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس وقت اللہ تعالی اپنے بندے سے خیر کا ارادہ فرما لے تو اسے دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے، اور جس وقت اللہ تعالی کسی بندے سے برائی کا ارادہ فرما لے تو اس کے گناہوں پر سزا نہیں دیتا، یہاں تک کہ جب قیامت قائم ہو گی تو اسے پوری سزا دے گا۔) اس حدیث کو ترمذی: (2396) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ: (1220) میں صحیح قرار دیا ہے۔

4-             اجر و ثواب اور بلندی درجات:

صحیح مسلم: (2572) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مومن کو کوئی کانٹا یا اس سے بڑی کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالی اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتے ہیں یا اس تکلیف کی بدولت اس کا ایک گناہ معاف کر دیتے ہیں)

5-             مصیبتیں اپنی کوتاہیوں پر غور و فکر کرنے کی یاد دہانی کرواتی ہیں کہ انسان ماضی میں کی ہوئی غلطیوں کے بارے میں سوچتا ہے؛ اس لیے کہ اگر یہ مصیبتیں سزا ہیں تو اس سزا کا موجب بننے والا جرم کب سر زد ہوا؟

6-             مصیبتیں؛ عقیدہ توحید ، ایمان اور توکل کا درس دیتی ہیں

کیونکہ مصیبتیں عملی طور پر آپ کو اپنی اصلیت دکھاتی ہیں اور یہ بتلاتی ہیں کہ تم کمزور ہو، تم اپنے پروردگار کے بغیر نہ تو کسی تکلیف کو دور کرنے کی ہمت رکھتے ہو اور نہ ہی اپنا فائدہ کرنے کی صلاحیت؛ اس لیے تم اپنے پروردگار پر ہی توکل کرو، اسی کی بارگاہ میں کما حقہ گڑگڑاؤ، جب انسان میں یہ چیز پیدا ہو جائے تو انسان کی میں مر جاتی ہے، انسان میں تکبر اور گھمنڈ نامی کوئی چیز باقی نہیں رہتی، انسان خود پسندی، غرور اور غفلت کے خول سے باہر آ جاتا ہے، آپ اپنے آپ کو ناتواں انسان سمجھتے ہیں کہ جو صرف اپنے پروردگار کے سامنے ہی گھٹنے ٹیکے ہوئے ہے، انسان اپنے آپ کو ایسا لاچار اور نا چار سمجھتا ہے جو کہ انتہائی مضبوط اور غالب ذات سے مدد کا متمنی ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ اسی کے بارے میں کہتے ہیں:
"اگر اللہ سبحانہ و تعالی اپنے بندوں کا علاج مختلف قسم کی مصیبتوں اور تکلیفوں کی صورت میں ادویات سے نہ کرے تو انسان سرکش بن جائے، بغاوت کرنے لگے اور نافرمانی پر اتر آئے۔ اسی لیے اللہ سبحانہ و تعالی انسان کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمائے تو اسے اس کی تشخیص کے مطابق آزمائشوں اور تکلیفوں کی دوا پلا کر اس کی روحانی مہلک بیماریاں نکال باہر فرماتا ہے، تو جب انسان ان بیماریوں سے پاک صاف ہو جائے ، کسی قسم کی بیماری باقی نہ رہے تو اسے دنیا کے عظیم ترین مقام؛ مقام عبدیت کے اہل قرار دے دیتا ہے، اور آخرت میں بندے کا اجر و ثواب بھی بڑھا دیتا ہے جو کہ دیدار باری تعالی کی صورت میں ہو گا۔" ختم شد
" زاد المعاد " ( 4 / 195 )

7-             مصیبتیں انسان کی روح سے خود پسندی نکال کر اسے اللہ کے قریب بنا دیتی ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:  وَيَوْم حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتكُمْ  ترجمہ: حنین کا دن یاد کرو جب تمہاری کثیر تعداد نے تمہیں خود پسندی میں مبتلا کر دیا تھا۔[التوبہ: 25] اس آیت کی تفسیر میں یونس بن بکیر نے "زیادات المغازی" میں روایت کیا ہے کہ ربیع بن انس کہتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن ایک شخص نے کہہ دیا تھا: آج ہم اپنی تعداد کم ہونے کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو سکتے۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر گراں گزری اور مسلمانوں کو [عارضی]شکست کا سامنا کرنا پڑا"

اسی طرح ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"اللہ تعالی کی کامل حکمت کی منشا تھی کہ آغاز میں مسلمان اسلحہ اور فوجیوں کی بہت بڑی تعداد کے باوجود شکست اور ہزیمت سے دوچار ہوں؛ تا کہ فتح مکہ کی وجہ سے جن کی گردنوں میں تناؤ آ گیا ہے وہ اس طرح جھک جائیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں داخل ہوتے ہوئے اپنی گردن جھکائے ہوئے تھے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گردن بارگاہ الہی میں عاجزی کے ساتھ اتنی جھکی ہوئی تھی کہ آپ کی ٹھوڑی بھی زین کو چھونے لگی تھی، لیکن اس غزوے کے موقع پر گردنوں کو اکڑانے والوں کی یہ کیفیت ہرگز نہیں تھی" ختم شد
زاد المعاد (3/477)

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَلِيُمَحِّصَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ: تا کہ اللہ تعالی ایمان لانے والوں کی کانٹ چھانٹ کر دے اور کافروں کو ملیامیٹ کر دے۔ [آل عمران:141]

اسی آیت کی تفسیر میں علامہ قاسمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اہل ایمان کو گناہوں سے پاک صاف کر دے، روحانی بیماریاں ختم کر دے، اسی طرح انہیں منافقوں سے ممتاز اور جدا کر دے۔۔۔۔ اللہ تعالی نے ان مصیبتوں اور آزمائشوں کی ایک اور حکمت بھی ذکر فرمائی کہ  وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ یعنی کافروں کو تباہ و برباد فرما دے؛ کیونکہ جب بھی کافروں کو موقع ملتا ہے تو بغاوت اور فساد پر تُل پڑتے ہیں، اور یہی بغاوت ان کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالی کا قانون ہے کہ جب اللہ تعالی اپنے دشمنوں کو ہلاک اور تباہ و برباد کرنے کا ارادہ فرما لے تو ان کے لیے ایسے اسباب مہیا فرما دیتا ہے جن کے نتیجے میں وہ تباہ و برباد ہو جاتے ہیں، چنانچہ کفر کے بعد ان میں سب سے بڑا سبب اللہ کے ماننے والوں کو انتہا درجے کی تکلیفیں دینا ، ان کے خلاف اعلان جنگ، انہیں مٹانے کے لیے مسلح تگ و دو اور ان پر اپنا تسلط قائم کرنا ہے۔۔۔ جیسے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف اعلان جنگ اور کفر پر ڈٹے رہنے والے سب افراد کو احد کے دن مٹا کر رکھ دیا۔" ختم شد
"القاسمی" (4/239)

8-             مصائب میں لوگوں کی حقیقت عیاں ہوتی ہے۔

کیونکہ ایسے لوگ موجود ہیں جن کی خوبیاں یا خامیاں کڑے حالات میں ہی واضح ہوتی ہے، جیسے کہ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب تک لوگ خوشحالی میں ہوتے ہیں ان کی خامیوں پر پردہ پڑا رہتا ہے، لیکن جیسے ہی ان پر کوئی امتحان آتا ہے تو پھر ان کی حقیقت عیاں ہوتی ہے؛ چنانچہ ایمان والوں کا ایمان ظاہر ہوتا ہے اور منافقوں کی منافقت عیاں ہو جاتی ہے۔"

اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ "دلائل النبوۃ" میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ :
"واقعہ معراج کے بعد بہت سے لوگوں کے لیے امتحان کا وقت آیا، تو لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سفرِ معراج سے متعلق دعوے کا ذکر کیا، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس دعوے میں بھی سچے ہیں! لوگوں نے کہا: کیا تم اس بات کی بھی گواہی دیتے ہو کہ وہ ایک رات میں شام سے واپس مکہ بھی آ گئے؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تو آپ کی اس سے بھی دور کی گواہی دیتا ہوں! میں تو آپ کے آسمانوں کی خبریں دینے کی بھی تصدیق کرتا ہوں۔ اسی وجہ سے انہیں صدیق کے لقب سے نوازا گیا۔"

9-             کڑے امتحانات افراد تیار کرتے ہیں:

اللہ تعالی نے بچپن سے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے سخت حالات سے بھر پور زندگی منتخب فرمائی؛ تا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مستقبل کی بڑی ذمہ داریوں کے لیے تربیت ہو سکے؛ کیونکہ بڑی ذمہ داریاں وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو کڑے حالات سے نمٹنا جانتے ہوں، جن کی راہ میں رکاوٹیں آئیں اور ان کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں، کڑے حالات آئیں اور گزر جائیں لیکن وہ اپنے منہج پر ڈٹے رہیں۔

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے تو یتیم تھے، پھر کچھ ہی عرصے کے بعد آپ کی والدہ بھی فوت ہو گئیں، اللہ تعالی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:  أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى  ترجمہ: کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا؟ اور پھر آپ کو ٹھکانا عطا کیا۔[الضحى: 6]

تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بچپن سے ہی ایسی تربیت فرمائی کہ آپ بڑی بڑی ذمہ داریاں اٹھا سکیں اور مشکلات کا سامنا کر سکیں۔

10-      انسان کڑے حالات میں مفاد پرست اور بے لوث دوستوں میں تفریق کے قابل ہو جاتا ہے۔

جیسے کہ کسی شاعر کا کہنا ہے کہ:

 جزى الله الشدائد كل خير وإن كانت تغصصني بريقي 

 وما شكري لها إلا لأني عرفت بها عدوي من صديقي 

اگرچہ کڑے حالات میرے گلے کی ہڈی بن گئے تھے لیکن پھر بھی اللہ تعالی انہیں ڈھیروں جزا دے، اس لیے کہ میں انہی کی بدولت دوست اور دشمن میں فرق کر پایا ہوں

11-      آزمائشیں اور مصیبتیں انسان کو اپنے گناہ یاد کرواتی ہیں تا کہ انسان ان سے توبہ تائب ہو جائے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

 وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيئَةٍ فَمِن نفسِكَ 

 ترجمہ: اور جو بھی تجھے تکلیف پہنچے تو وہ تیری ہی طرف سے ہے۔[النساء:79]

ایسے ہی اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:

وَمَا أَصابَكُم من مصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَت أَيدِيكُم وَيَعفُوا عَن كَثِيرٍ

 ترجمہ: اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے، اور وہ بہت سی باتوں کو معاف کر دیتا ہے۔[الشورى:30]

اس لیے دنیا میں آنے والی مصیبت اور آزمائش روزِ قیامت سے قبل بڑے عذاب سے پہلے توبہ کی یاد دہانی کرواتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَنُذِيْقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُوْنَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ

ترجمہ: اور ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے قریبی عذاب ضرور چکھائیں گے تا کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں۔[السجدة:21] اس آیت میں قریبی عذاب سے مراد انسان کو پہنچنے والی دنیاوی آزمائشیں، مصیبتیں اور تکلیفیں ہیں۔

جس وقت انسان کی زندگی عیش و عشرت سے بھر پور ہو تو انسان غرور، تکبر اور گھمنڈ کرنے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے اس دنیا میں اللہ تعالی کی مدد کی بھی ضرورت نہیں ہے، تو یہ اللہ تعالی کی نعمت ہے کہ اللہ تعالی انسان کو اپنی طرف موڑنے کے لیے آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے۔

12-      مصیبتیں انسان کے لیے دنیا کی حقیقت اور دھوکا عیاں کرتی ہیں۔

تکلیفیں انسان کے لیے یہ واضح کرتی ہیں کہ کامل اور ہر قسم کی تکلیف سے آزاد زندگی تو اس دنیاوی زندگی کے بعد ہیں، اس زندگی میں کوئی بیماری یا تھکاوٹ تک بھی نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِىَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ

ترجمہ: اور یقیناً آخرت کا گھر ہی حقیقی زندگی والا ہے، کاش کہ وہ جانتے ہوتے۔[العنکبوت: 64]

جبکہ یہ دنیاوی زندگی تو تکالیف ، پریشانیوں اور مصیبتوں سے گھری ہوئی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: لَقَد خَلَقنَا الإِنسانَ في كَبَدٍ ترجمہ: یقیناً ہم نے انسان کو سختی جھیلتے رہنے والا پیدا کیا ہے۔[البلد: 4]

13-      تکلیف کے وقت انسان کو صحت و عافیت جیسی اللہ تعالی کی نعمتیں خوب یاد آتی ہیں۔

مصیبتیں انسان کو صحت و عافیت کی نعمت کی قدر بڑے ہی آسان اور بلیغ ترین انداز سے سکھا دیتی ہیں، جن نعمتوں کی ناقدری کرتے ہوئے سالہا سال انسان انہیں استعمال کرتا ہے ان کی حقیقی لذت انسان کو معلوم ہو جاتی ہے۔

تکلیفیں انسان کو نعمت دینے والی ذات اور نعمتوں کی یاد دہانی کرواتی ہیں، اس یاد دہانی کی بدولت انسان اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے اور اس طرح یہ تکالیف بھی انسان کے لیے خیر کا باعث بن جاتی ہیں۔

14-      جنت کا شوق پیدا ہوتا ہے۔

انسان جب تک دنیاوی تکالیف نہ بھوگے اس وقت تک جنت کا مشتاق نہیں ہوتا، تو ایسے کیونکر ہونے لگا کہ انسان دنیاوی عیش و عشرت میں مست ہو اور وہ جنت کی تمنا کرنے لگے؟!

مصیبتوں اور آزمائشوں کی مندرجہ بالا کچھ حکمتیں اور فوائد ہیں، جبکہ اللہ تعالی کی حقیقی حکمت تو ان سے بہت عظیم اور بالا تر ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب