جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

کیا بیٹا والد کی رضامندی کےبغیر شادی کرسکتاہے ؟

تاریخ اشاعت : 05-12-2003

مشاہدات : 10150

سوال

کیا کوئي شخص اپنے والد کی رضامندی کے بغیر دینی اوراخلاقی لحاظ سے پسندیدہ لڑکی سے شادی کرسکتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


جب بیٹا کسی دینی اوراخلاقی لحاظ سے اچھی لڑکی کواختیار کرتا ہے تو وہ اس میں غلطی پر نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت بھی یہی ہے کہ جوبھی نکاح کرنا چاہے وہ دین اوراخلاق والی لڑکی اختیار کرے ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( عورت سے چاروجوہات کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے ، اس کے مال ودولت کی وجہ سے ، اس کےحسب ونسب کی وجہ سے ، اوراس کی حسن خوبصورتی کی وجہ سے ، اوراس کے دین کی وجہ سے ، تمہارے ہاتھ خاک میں ملیں تم دین والی کو اختیار کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4802 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1466 ) ۔

ذيل میں ہم آپ اورآپ کے والد صاحب کے لیے شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کی نصیحت پیش کرتے ہیں جو آپ کے موضوع سے ہی متعلقہ ہے :

اس سوال کا تقاضا ہے کہ ہم دو طرح کی نصیحت کریں ۔

پہلی نصیحت : آپ کے والد کے لیے ہے کہ وہ آپ کو دین اوراچھے اخلاق کی مالکہ عورت سےشادی نہیں کرنے دیتا بلکہ آپ کے والد پر واجب ہے کہ وہ آپ کو اس لڑکی سے شادی کی اجازت دے دے اورانکار پر اصرار نہ کرے ، لیکن اگر اس کے پاس کوئي شرعی عذر ہے تو وہ آپ کے سامنے بیان کرے اوربتائے تا کہ آپ بھی مطمئن ہوں ۔

اسے یہ سوچنا چاہیے کہ اگر اس کا والد اسے ایک دین والی اوراچھے اخلاق کی مالک لڑکی سے شادی نہ کرنے دے تو کیا وہ نہیں سوچے گا کہ اس میں اس کی آزادی سلب کی گئي ہے اوراسے دبایا جارہا ہے ؟

جب وہ اپنے والدکی طرف سے ایسا ہونے میں خوش نہیں تو پھر وہ اس پر کیسے راضي ہورہا ہے کہ اس سے خود اپنے بیٹے کے حق میں ایسا ہو ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو فرمان ہے کہ :

( تم میں اس وقت تک کوئي مومن ہی نہيں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائي کے لیے بھی وہی چيز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ) ۔

لھذا آپ کے والد کے لیے ایسا کرنا حلال نہیں کہ وہ اس لڑکی سے آپ کو بغیر کسی شرعی سبب کے شادی نہ کرنے دے ، اوراگر کوئي شرعی سبب ہے تواسے بیان کرنا چاہیے کہ تا کہ آپ کو بھی اس کا علم ہو ۔

اورسائل کو ہماری یہ نصحیت ہے کہ :

میں یہ کہوں گا کہ اگر آپ اس عورت کو چھوڑ کر کسی اورعورت سے شادی کرليں تا کہ آپ کے والدہ صاحب بھی راضي ہوجائيں اورتفرقہ بھی نہ پڑے اگر ایسا کرنا ممکن ہو تو آپ ایسا کرلیں ۔

اوراگر یہ نہیں ہوسکتا وہ اس طرح کہ آپ اس لڑکی سےمحبت کرنے لگے ہیں اورآپ کو یہ بھی خدشہ ہو کہ اگر کسی اور عورت سے منگنی کروں تو وہاں بھی والد شادی نہیں کرنے دیں گے – کیونکہ بعض لوگوں کے دلوں میں غیرت یا پھر حسد ہوتا ہے چاہے وہ اپنے بیٹوں کے بارہ میں ہی کیوں نہ ہو وہ اپنے بیٹوں کو بھی اپنی مرضی کا کام نہیں کرنے دیتے بلکہ اس سے منع کرتے ہیں ۔

میں یہ کہوں گا کہ جب آپ کو اس کا خدشہ ہو اورآپ اس عورت سے محبت کرنے لگے ہیں اورصبر نہيں کرسکتے تو پھر آپ کےلیے کوئي حرج نہيں آپ اس لڑکی سے شادی کرليں چاہے آپ کے والد ناپسند ہی کریں ، ہوسکتا ہے کہ شادی کے بعد وہ مطمئن ہوجائيں اور رضامندی کا اظہار کرنے لگیں اوران کے دل میں جو کچھ ناراضگي ہے وہ ختم ہوجائے ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ دونوں معاملوں میں سے جو بھی آپ کے لیے اچھا ہو اس میں آپ کے لیے آسانی پیدا فرمائے ۔

دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 4 / 193- 194 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب