ہفتہ 1 جمادی اولی 1446 - 2 نومبر 2024
اردو

مريض اور نجاست پر كنٹرول نہ كرسكنے والے كى نماز باجماعت كا حكم

تاریخ اشاعت : 14-04-2006

مشاہدات : 8577

سوال

ميرے ايك دوست كا پاخانہ والى جگہ كى تبديلى كا آپريشن ہوا ہے ـ اور اس كے پہلو ميں سوراخ كر كے پاخانہ كا راستہ بنايا گيا ہے ـ كيونكہ اسے ورم تھا، ميرا سوال يہ ہے كہ:
نيا راستے سے پاخانہ اور ہوا كے اخراج پر كنٹرول نہيں ہو سكتا، كيا اس كے ليے مسجد ميں نماز ادا كرنا جائز ہے، يا كہ وہ نماز گھر ميں ہى ادا كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اسے شفايابى و عافيت سے نوازے، اسى طرح ہم اللہ تعالى سے اس كے ليے اس كى اس تكليف اور آزمائش پر صبر اور اجروثواب كى دعا كرتے ہيں.

اس بيمارى كى حالت ميں مريض پاخانہ كے اخراج پر كنٹرول نہيں كر سكتا، بلكہ پاخانہ اس مصنوعى راستے سے مسلسل نكلتا رہتا ہے، اور اس كا حكم مسلسل پيشاب جارى رہنے والے ہى كا ہے.

اس بنا پر اس بيمارى ميں مبتلا شخص كے ليے اگر ہر نماز وقت پر ادا كرنے ميں مشقت ہو تو وہ دو نمازيں جمع كر سكتا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

صحيح يہ ہے كہ نمازيں جمع كرنا لمبے سفر كے ساتھ ہى خاص نہيں، بلكہ بارش اور مرض كى بنا پر بھى جمع ہو سكتى ہيں، جيسا كہ اس كا ذكر احاديث ميں بھى مستحاضہ كا نمازيں جمع كرنا موجود ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے استحاضہ والى عورت كو نمازيں جمع كرنے كا حكم ديا، اس كا ذكر دو احاديث ميں ملتا ہے"

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 1 / 49 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے بيمارى كى بنا پر پيشاب كنٹرول نہ كرسكنے والى عورت كے حكم ميں كہا ہے:

اگر معاملہ ايسا ہى ہو جيسا بيان كيا گيا ہے تو وہ اپنى حسب حالت نماز ادا كرے گى، اور ظہر يا عصر كے وقت ميں دونوں نمازيں جمع كرنے ميں بھى كوئى مانع نہيں، اور اسى طرح مغرب اور عشاء بھى جمع ہو سكتى ہيں؛ كيونكہ عمومى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں، شريعت يہ آسانى كرتى ہے كہ وقت داخل ہونے كے بعد ظہر اور عصر كے ليے وضوء كرے، اور اسى طرح مغرب اور عشاء كے ليے وقت شروع ہونے كے بعد وضوء كرے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 85 ).

دوم:

اس طرح كے مريض سے مسجد ميں باجماعت نماز ادا كرنا ساقط نہيں ہوتى، ليكن اگر اس كے مسجد جانے ميں مسجد ميں گندگى پھيلنے كا خطرہ ہو يا پھر نئے راستے سے گندى بدبو خارج ہونے كا خدشہ ہو؛ جس ميں نمازيوں كو اذيت ہو تو پھر نہ جائے.

ـ كريہہ قسم كى بدبو كا خارج ہونا نماز باجماعت كے وجوب سے سقوط كا عذر ہے، بلكہ ايسے شخص كے ليے مسجد ميں آنا ہى حلال نہيں، كيونكہ اس بدبو سے فرشتے اور نمازي اذيت محسوس كرينگے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اگر مونہہ سے گندى اور متعفن قسم كى بدبو خارج ہوتى ہو يا پھر ناك وغيرہ سے جو نمازيوں كے ليے اذيت كا باعث بنے تو اذيت كو ختم كرنے كے ليے اسے مسجد ميں نہيں جانا چاہيے"

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 323 ).

لہسن اور پياز كھا كر مسجد آنے سے منع كر ديا گيا ہے، كيونكہ اس سے كريہہ قسم كى بدبو آتى ہے، اور اس كے ساتھ خبيث اور گندے اور حرام سگرٹ كى بدبو بھى ملحق ہو گى.

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے پياز، اور لہسن اور كراث ( يہ ايك سبزى ہے جس كى بدبو ہوتى ہے ) كھايا وہ ہمارى مسجد كے قريب بھى نہ آئے، كيونكہ جس چيز سے بنو آدم اذيت محسوس كرتے ہيں اس سے فرشتے بھى اذيت محسوس كرتے ہيں"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 564 ).

اور اگر اس مريض كى مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنا عادتا ہو تو اسے نماز باجماعت كا اجروثواب حاصل ہو گا، چاہے وہ اپنے گھر ميں ہى نماز ادا كرے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اگر معذور شخص كى نماز باجماعت ادا كرنے كى عادت ہو تو اسے جماعت كا اجروثواب حاصل ہو گا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب بندہ بيمار ہو جائے يا پھر وہ سفر پر ہو تو اسے اسى طرح كا اجروثواب لكھا جاتا ہے جو وہ صحيح اور مقيم ہونے كى حالت ميں عمل كرتا رہا ہے "

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 323 ).

اور مسجد ميں نجاست كى گندگى پھيلانا حرام ہے، ہميں مساجد كو پاك صاف ركھنے اور وہاں خوشبو لگانے كا حكم ہے.

امام بخارى اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما بيان كيا ہے كہ:

" ايك اعرابى نے آكر مسجد ميں پيشاب كرنا شروع كر ديا تو لوگوں نے اسے ڈانٹا، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں اس سے منع فرمايا، اور جب اس نے پيشاب كر ليا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك ڈول پانى لا كر اس پر بہانے كا حكم ديا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 221 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 284 ).

اور مسلم شريف كى روايت ميں ہے كہ:

" پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس اعرابى كو بلايا اور اسے فرمانے لگے:

يقينا يہ مساجد اس پيشاب اور گندگى وغيرہ كے لائق نہيں، بلكہ يہ تو اللہ تعالى كا ذكر كرنے اور نماز ادا كرنے اور تلاوت قرآن كے ليے ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 285 ).

مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" مسجد ميں نجاست داخل كرنا حرام ہے، اور جس شخص كے بدن پر نجاست ہو اگر اس سے مسجد ميں گندگى پھيلنے كا خدشہ ہو تو اس كے ليے مسجد ميں داخل ہونا جائز نہيں " اھـ

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب