جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

كيا جرمنى ميں رہنے والا يورپى كميٹى كے ساتھ روزہ ركھے يا كہ سعودى كميٹى كے ساتھ ؟

تاریخ اشاعت : 10-09-2007

مشاہدات : 5881

سوال

ہم جرمنى ميں رہائش پذير ہيں، مشكل يہ پيش آئى ہے كہ امام مسجد كا كہنا ہے كہ ہم سعودى عرب كے مطابق روزہ ركھيں گے، اور دوسرى مسجد ميں اعلان ہوا ہے كہ ہم يورپى اسلامى كميٹى كے اعلان كے مطابق روزہ ركھيں گے كيونكہ وہ چاند ديكھنے كا اہتمام كرتى ہے، اس سلسلے ميں آپ كى رائے كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو يورپى اسلامى كميٹى رؤيت ہلال پر اعتماد كرتى ہے، تو اس سلسلے آپ كے ليے بہتر يہى ہے كہ آپ روزہ ركھنے اور عيد منانے ميں ان كى موافقت كريں.

اس مسئلہ ميں قديمى اور مشہور اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا ہر ملك اور علاقے كے ليے رؤيت ہے يا كہ چاند ديكھنے والوں كى سب كو اتباع كرنا ہو گى چاہے مطلع جات مختلف بھى ہوں ؟

اور يہ اختلاف اجتھاد پر مبنى ہے، دلائل سے تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ دونوں اقوال ميں سے كسى ايك پر بھى عمل كرنے والے پر كوئى حرج نہيں.

ان دونوں اقوال ميں سے مطلع جات كا مختلف ہونا معتبر قول ہے، اس قول كے متعلق كچھ دلائل سوال نمبر ( 50487 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں، ان كا مطالعہ كريں.

اس پر دلالت كرنے والے دلائل ميں مسلم شريف كى درج ذيل حديث ہے جس ميں كريب بيان كرتے ہيں كہ ام الفضل بنت حارث نے انہيں شام ميں معاويہ رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس بھيجا، تو كہتے ہيں: ميں شام آيا اور ان كا كام مكمل كيا، ابھى ميں شام كے علاقے ميں ہى تھا تو رمضان المبارك كا چاند نظر آ گيا، چنانچہ ميں نے جمعہ كى رات چاند ديكھا، پھر ميں مہينہ كے آخر ميں مدينہ واپس آيا تو عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے مجھے چاند كے متعلق پوچھا اور كہنے لگے: تم نے چاند كب ديكھا تھا ؟

ميں نے عرض كيا: ہم نے جمعہ كى رات چاند ديكھا، تو انہوں نے فرمايا: كيا تم نے خود چاند ديكھا تھا ؟ تو ميں نے عرض كيا جى ہاں، اور لوگوں نے بھى اسے ديكھا تو لوگوں اور معاويہ رضى اللہ تعالى عنہ نے روزہ ركھا.

تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: ليكن ہم نے تو ہفتہ كى رات چاند ديكھا ہے، ہم تو تيس روزے مكمل كرينگے، يا پھر شوال كا چاند ديكھ ليں، تو ميں نے كہا: كيا معاويہ رضى اللہ تعالى عنہ كى رؤيت اور ان كا روزہ ركھنا كافى نہيں ؟

تو انہوں نے فرمايا: نہيں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں ايسے ہى حكم ديا ہے "

يہ اس بات كى دليل ہے كہ اگر ملك ايك دوسرے سے دور ہوں تو پھر ہر علاقے اور ملك كى رؤيت كا اعتبار ہوگا، اور كسى ايك علاقے كے لوگوں كا چاند ديكھنے سے دوسرے ملك كے لوگوں پر روزہ ركھنا لازم نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب