الحمد للہ.
کبارعلماء اورمستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) نے اس مسئلہ میں ایک فتوی صادر کیا ہے ، ذيل میں ہم سوال اوراس کا جواب درج کرتے ہیں : والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ ۔۔۔ وبعد :
مستقل فتوی اورعلمی ریسرچ کمیٹی نے ھالینڈ کے اتحاد طلبہ مسلمین کے جنرل سیکٹری کی جانب سے کمیٹی کے رئیس کے نام پیش کردہ سوال کوبغور دیکھا جوکہ کبار علماء کی جانب سے مستقل کمیٹی کی طرف تحویل کیا گيا تھا سوال کی نص مندرجہ ذيل ہے :
سوال :
آپ سے گزارش ہے کہ ہمیں نماز اورروزہ کی کیفیت میں فتوی دیں کہ مغرب اورعشاء اورنماز فجر کے اوقات کی تعیین ، اوراسی طرح رمضان المبارک اورعیدالفطر کی تعیین کس طرح کی جائے کیونکہ شمالی یورپ اورقطب شمالی کے قریب ممالک میں طلوع وغروب مشرق میں اسلامی ممالک سے مختلف ہے ، اس کا سبب سرخ اورسفید شفق کاغائب ہونا ہے ، کیونکہ دیکھا جاتا ہے کہ گرمیوں میں سفید شفق تقریبا ساری رات ہی رہتی ہے جس کی بنا پر عشاء کی نماز کے اوقات کی تحدید کرنی مشکل ہے اوراسی طرح فجر کا بھی پتہ نہیں چلتا ؟
جواب :
مملکت سعودی عرب کے کبارعلماء کرام کی کمیٹی کی جانب سے آپ جیسےممالک میں نمازکے اوقات کی تحدید اور رمضان المبارک میں ہردن کی ابتداء اورانتھاء کے بارہ میں مندرجہ ذيل فیصلہ کیا گيا :
کمیٹی نے بحث وتمحیث اورعلمی ریسرچ کے بعد مندرجہ ذيل فیصلہ کیا :
اول :
جولوگ ایسے ممالک میں بستے ہوں جہاں پر دن رات میں طلوع فجر اورغروب شمس کے ساتھ تمیزتوہوسکتی ہے لیکن گرمیوں میں دن بہت زيادہ طویل اورسردیوں میں بہت ہی چھوٹا ہوجاتا ہے ان ممالک کے لوگوں پر واجب ہے کہ وہ نماز پنجگانہ شرعی طورپرمعروف اوقات میں پڑھیں ، اس کی دلیل اللہ تعالی کے فرمان کا عموم ہے :
آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک نماز قائم کریں ، اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی یقینا فجر کےوقت قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے الاسراء ( 78 ) ۔
اورایک دوسری جگہ پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
یقینا مومنوں پر نماز پڑھنا وقت مقررہ پر فرض کیا گیا ہے النساء ( 103 ) ۔
اورحدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ بریدہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے نماز کے اوقات کے بارہ میں سوال کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ہمارے ساتھ دو دن تک نماز ادا کرو ۔
جب سورج ڈھلاتو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان کہنے کا حکم دیا توانہوں نے اذان کہی اور آپ نے اسے اقامت کا حکم دیا توانہوں اقامت کہی ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں عصر کی اقامت کا حکم دیا تو اس وقت سورج بالکل سفید اورصاف شفاف تھا ، پھر غروب آفتاب کےوقت مغرب کی اقامت کا حکم دیا ، اورجب شفق غائب ہوگئي تو عشاء کی اقامت کہنے کا کہا ، اورجب طلوع فجر ہوئي تو فجر کی اقامت کا کہا ۔
اورجب دوسرا دن ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضي اللہ تعالی عنہ کوحکم دیا کہ ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرکے پڑھیں توانہوں نے اس میں دیر کی ، اورجب عصر اس وقت پڑھی جب سورج ابھی اونچا تھا اورپہلے دن سے ذرا مؤخر کیا ۔
اورمغرب غروب شفق سے پہلے ادا کی ، اورعشاء کی نماز رات کا ثلث یعنی تیسرا حصہ گزر جانے کے بعد ادا کی ، اورفجر کی نماز روشنی میں پڑھی ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سائل کہاں ہے ؟
وہ شخص کہنےلگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : جو کچھ تم نے دیکھا ہے اس کے مابین تمہاری نماز کا وقت ہے ۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم ۔
اورعبداللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب سورج ڈھل جائے اورآدمی کا سایہ اس کے برابر ہو اورجب تک عصر کا وقت نہ ہو توظہر کی نماز کا وقت ہے ، اورسورج کے زرد ہونے تک عصر کا وقت ہے ، اورمغرب کی نماز کا وقت غروب شفق تک ہے ، اورعشاء کی نماز کا وقت نصف رات تک ہے ، اور نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے لیکر طلوع شمس تک ہے ، جب سورج طلوع ہوجائے تو نماز نہ پڑھو کیونکہ سورج شیطان کے سینگوں کے مابین طلوع ہوتا ہے ) صحیح مسلم ۔
نماز کے اوقات کی تحدید میں اس کے علاوہ اور بھی کئي ایک احادیث ہیں جن میں نماز پنجگانہ کے اوقات کی فعلی اورقولی تحدید موجود ہے جس میں دن کے لمبے یا چھوٹے ہونے کا کوئي فرق نہیں کیا گیا ، جب تک نماز کےاوقات کی ایک دوسرے سےاس علامات کی بنا تمیز ہوتی ہو جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے موجود ہوں تواسی اوقات میں نماز ادا کی جائے گی ۔
یہ تو ان کی نمازوں کے اوقات کی تحدید تھی اب رہا مسئلہ رمضان المبارک یا دوسرے نفلی روزوں کے اوقات کی تحدید کا اس میں ہم یہ گزارش کریں گے کہ مکلفین کواپنے اپنے ممالک میں جب دن اوررات میں تمیز ہوتی ہو تو ہر روز طلوع فجر سے لیکر غروب شمس تک ہرکھانے پینے اورروزہ توڑنے والی چيز کوترک کرنا ہوگا ۔
اس دن رات کا مجموعی وقت چوبیس گھنٹے ہے لھذا ان کے لیے صرف رات کے وقت کھانا پینا اورجماع وغیرہ حلال ہے چاہے وہ رات چھوٹی ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ شریعت اسلامیہ سب ممالک کے لوگوں کے لیے عام ہے ، اورپھراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
صبح کا سفید دھاگہ رات سے سیاہ کے دھاگے سے واضح ہونے تک کھاتے پیتے رہو ، پھر رات تک روزہ پورا کرو ۔
اورجوشخص دن کے لمبا ہونے یا پھر علامات یا تجربہ یا پھر کسی امین اورماہر ڈاکٹر کے بتانے سے یہ جانے کہ وہ روزہ نہيں رکھ سکتا یا اس کا ظن غالب یہ ہو کہ اگر اس نے روزہ رکھا تو اس کی بیماری میں شدت آجائے گی یا وہ ہلاک ہوجائے گا یا پھر اسے کی شفایابی میں تاخیر ہوجائے گی تووہ اس دن کا روزہ نہ رکھے بلکہ بعد میں وہ اس کی قضاء کرے گا کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
جوبھی تم میں سے اس مہینہ کو پائے اسے اس کا روزہ رکھنا چاہیۓ اورجوشخص مریض یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے ۔
اورایک مقام پر اس طرح فرمایا :
اللہ تعالی کسی نفس کوبھی اس کی طاقت سے زيادہ مکلف نہيں کرتا ۔
اورایک مقام پر کچھ یہ فرمان جاری کیا :
اللہ تعالی نے تم پر دین میں کوئي حرج اورتنگی نہیں کی ۔
دوم :
اورجو شخص کسی ایسے ملک میں بستا ہو جہاں پرگرمیوں میں سورج غروب ہی نہيں ہوتا اورنہ ہی سردیوں میں طلوع ہوتا ہے ، یا پھر کسی ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں پر چھ ماہ رات اورچھ ماہ دن رہتا ہے تو ان پر واجب ہے کہ وہ ہر چوبیس گھنٹوں میں پانچ نمازیں ادا کریں ۔
لیکن انہیں اس میں اپنے قریب ترین نماز کے اوقات میں تمیز ہونے والے ملک کےاوقات کے اندازے سےعمل کریں کیونکہ حدیث اسراء ومعراج میں اس کا ذکر پایا جاتا ہے جس میں ہے اللہ تعالی نے دن اور رات میں پچاس نمازیں فرض فرمائیں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم باربار اللہ تعالی سے کمی کی درخواست کرتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے فرمایا :
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم دن رات میں یہ پانچ نمازيں ہیں اورہرنماز دس کےبرابر ہیں جس سے یہ پچاس نمازوں کےبرابر ہوئيں ۔۔ ۔ حدیث کے آخرتک ۔
اوراسی طرح طلحہ بن عبیداللہ رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں بھی یہ ثابت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نجد سے آیا اس کے سرکے بال پراگندہ تھے ہم اس کی آواز کی گن گن تو سن رہے تھے لیکن سمجھ نہيں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔
حتی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب ہوا تووہ اسلام کے بارہ میں سوال کررہا تھا ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
دن اور رات میں پانچ نمازيں ہیں ، وہ شخص کہنے لگا کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پرکچھ ہے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
نہیں اس کے علاوہ کچھ نہيں لیکن یہ ہے کہ تو نفلی عبادت کرے ۔۔۔ الحدیث ۔
اورانس بن مالک رضي اللہ تعالی کی حدیث میں ہے کہ : ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے منع کیا گيا توہم یہ پسند کرتے تھے کہ کوئي عقل مند دیھاتی شخص آ کرسوال کرے اورہم سنیں ۔
ایک دن ایک بدوی شخص آیا اورکہنے لگا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آپ کا نمائندہ آیا اورکہنے لگا کہ آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اس نے سچ کہا ہے ۔
وہ دیہاتی کہنے لگا کہ آپ کے نمائندے نے یہ بھی کہا کہ ہم پر ہمارے دن اوررات میں پانچ نمازیں فرض ہیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اس نے سچ کہا ہے ، تو بدوی شخص کہنے لگا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا کربھیجا ہے کیااللہ تعالی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے جی ہاں ایسا ہی ہے ۔ الحدیث ۔
اوریہ بھی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو مسیح الدجال کے بارہ میں بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ وہ زمیں میں کتنے یوم تک رہے گا ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چالیس یوم تک رہے گا ، ایک دن ایک برس کےبرابر ہوگا اورایک دن ایک ماہ کے برابر ہوگا ، اورایک دن جمعہ ( ایک ہفتے ) کے برابر ہوگا ، اوراس کے باقی سارےایام تمہارے ان دنوں کے برابر ہونگے ۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا وہ دن جوایک برس کے برابر ہوگا اس میں ایک دن کی نمازيں کافی ہونگی ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : نہيں بلکہ اس کے لیے اندازہ مقرر کرو ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سال کے برابر والے کو ایک دن شمار نہيں کیا کہ اس میں پانچ نمازیں کافی ہونگی ، بلکہ ہرچوبیس گھنٹوں میں پانچ نمازيں واجب کیں ، اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اس یوم کواپنے ملک کے عادی ایام کےمطابق تقسیم کرکےنماز ادا کریں ۔
لھذا جن ممالک کے بارہ میں سوال کیا گيا ہے ان میں بسنے والے مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ نماز کے اوقات کی تحدید میں اپنے قریب ترین ملک جس میں دن اوررات کی تمیز ہوتی ہے میں شرعی علامات کومدنظررکھتے ہوئے چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں مقرر کریں ۔
اوراسی طرح رمضان المبارک کے روزوں میں بھی رمضان کی ابتداء اورانتھاء کا اندازہ اورروزے کی ابتداء اورانتھاء کا بھی اندازہ لگانے میں سورج طلوع وغروب ہونے والے قریب ترین ملک کے حساب سے اندازہ لگاکر روزہ رکھیں ، جیسا کہ مسیح الدجال والی حدیث میں بھی بیان ہوا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو بھی نماز کے اوقات میں تحدید کا اندازہ لگائیں ، کیونکہ نماز اورروزہ میں کوئي فرق نہيں ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل اورصحابہ کرام پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔ .