الحمد للہ.
ميرى رائے يہ ہے كہ يہ چيز خاوند كى نيت پر منحصر ہے كيونكہ يہ الفاظ كنايہ ميں شامل ہوتے ہيں، اور كنايہ كا انحصار نيت پر ہے، اس ليے اگر يہ شخص طلاق نہيں چاہتا تھا تو طلاق واقع نہيں ہوئى، كيونكہ اس طرح كے تعلقات اور اس كے مشابہ بہت سارے ازدواجى تعلقات كے ساتھ اور اخوت كے ساتھ كنايہ ہوتے ہيں، اور پرانى دوستى كے ساتھ بھى، اور ہميشہ احتمال والے مقارنہ اور موازنہ سے.
اس ليے جب اس ميں احتمال پايا جاتا ہے تو يہ قسم اٹھانے والے كى نيت پر لوٹےگا، اگر تو وہ اس سے صريح طلاق كى نيت ركھتا تھا تو پھر ايك طلاق ہوگئى، اور دوسرى بار اس نے جو كہا وہ پہلے كى تاكيد ہے اس سے كچھ واقع نہيں ہوگا، اور اگر وہ اس سے وہ دوسرى طلاق كى نيت ركھتا تھا تو دوسرى طلاق واقع ہو گئى.
فضيلۃ الشيخ عبد اللہ بن جبرين رحمہ اللہ .