جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اى ميل كے ذريعہ طلاق دينے كا حكم

سوال

پہلى طلاق اى ميل كے ذريعہ دى گئى اور يہ اى ميل بيوى اور باپ اور چچا كو ارسال كى گئى تو كيا يہ طلاق صحيح ہے يا كہ دستخط والا كاغذ ہونا ضرورى ہے ؟
اور كيا باقى دو طلاقيں ابھى حاصل كرنا ممكن ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

يہ بات تو سب كو معلوم ہے كہ شريعت اسلاميہ ميں صرف زبان سے طلاق كے الفاظ نكالنے يا پھر لكھنے يا اشارہ جو كلام كے قائم مقام ہو سے طلاق ہو جاتى ہے.

اس كى مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 20660 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، يہ تو اس صورت ميں ہے جب معاملہ اللہ اور اس كے بندے كے مابين ہو اور اسے كسى دوسرے نے نہ سنا ہو.

رہا مسئلہ اى ميل كے ذريعہ طلاق دينے كا طلاق واقع ہونے كے سلسلہ ميں تو كوئى مشكل نہيں طلاق واقع ہو جائيگى كيونكہ جب خاوند اپنى بيوى كى طلاق لكھ دے تو طلاق لكھنے كى صورت ميں واقع ہو جائيگى، ليكن يہاں اس طلاق كى توثيق اور ثبوت كا مسئلہ ہے، آيا يہ اى ميل خاوند نے كى بھى ہے يا نہيں ؟

ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ اى ميل كے ذريعہ خاوند كى جانب سے دى گئى طلاق واقع ہوگى جب يقينى طور پر ثابت ہو جائے كہ طلاق والى اى ميل خاوند نے ہى ارسال كى ہے، يا پھر اس شخص نے جس كو خاوند نے طلاق دينے كے ليے وكيل بنايا تھا، اور وہ خود اس كا اعتراف كر لے اور اس سے انكار نہ كرتا ہو.

ليكن اگر يہ ثابت نہ ہو سكے اور نہ ہى خاوند اس كا اعتراف كرے تو پھر اس اى ميل كى كوئى حيثيت و اعتبار نہيں ہوگا، اور اس حالت ميں اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.

كيونكہ انٹر نيٹ اور اى ميل استعمال كرنے والے سب افراد كو معلوم ہے كہ كسى كى اى ميل چرا كر اسے اى ميل كرنا ممكن ہے، اس ليے يقينى طور پر يہ نہيں كہا جا سكتا كہ يہ اى ميل كرنے والا خود خاوند ہے، لہذا يہ كہنا صحيح نہيں ہو گا كہ يہ اى ميل خاوند نے ارسال كى ہے.

اس ليے يہ ضرورى ہے كہ يہ يقين كر ليا جائے اور ثابت ہو جائے كہ اى ميل خاوند نے ہى كى ہے، اور جب ثابت ہو جائے اور خاوند اقرار كر لے كہ اى ميل اس نے كى تھى تو پھر يہ طلاق شمار كى جائے، اور اگر وہ اقرار كر لے تو پھر عدت اس وقت سے شمار كى جائيگى جب اس نے طلاق كے الفاظ بولے يا لكھے تھے.

دوم:

فورى طور پر اس وقت باقى دو طلاقيں حاصل كرنا اور دينا ممكن نہيں، كيونكہ طلاق ايك كے بعد دوسرى بار ہوتى ہے اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

طلاقيں دو بار ہيں .

يعنى رجعى طلاق دو بار ہے، اللہ تعالى نے " طلقتان " نہيں فرمايا جو كہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ طلاق ايك كے بعد دوسرى بار واقع ہو گى، اور ہر بار كى طلاق ميں عدت بھى ہے، اس ليے جب پہلى طلاق شمار ہو گئى ہو تو ہم عدت كے دوران ديكھيں گے اگر تو خاوند آپ كو عدت كے دوران واپس لے جاتا ہے اور رجوع كر ليتا ہے تو يہ طلاق شمار ہو جائيگى اور باقى دو طلاقيں رہ جائيں گى، اور خاوند كو اس پر گواہ بنانا ہونگے.

اور اگر وہ دوران عدت آپ سے رجوع نہيں كرتا تو آپ عدت گزرتے ہى اس سے بائن ہو جائيں گى، اور اس كے ليے حلال نہيں ہونگى، الا يہ كہ نئے مہر كے ساتھ نيا نكاح پورى اور شرعى شروط كے ساتھ عقد نكاح ہو.

اور يہ آپ كے ليے باقى لوگوں كى طرح اجنبى ہوگا جب تك آپ اور آپ كے ولى كى موافقت اور رضامندى نہيں ہوتى يہ نيا نكاح نہيں ہو سكتا.

اور دوسرى طلاق ہو جانے كى صورت ميں بھى يہى يہى كہا جائيگا كہ اگر دوران عدت آپ سے رجوع كر لے تو آپ اس كى بيوى ہيں، اور نہيں كرتا تو پھر وہى پہلى صورت ہوگى.

اور اگر تيسرى طلاق دے ديتا ہے تو آپ اس كے ليے حرام ہو جائينگى جب تك كہ آپ كسى دوسرے شخص سے شرعى نكاح نہيں كر ليتى، اور اس نكاح سے مقصود پہلے خاوند كے ليے حلال ہونا نہ ہو، اور شرعى دخول بھى ہو اگر اس دوسرے خاوند سے كسى سبب كے باعث علحدگى ہو جائے تو آپ پہلے خاوند كے ليے عدت گزرنے كے بعد حلال ہونگى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب