جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

عيسى عليہ السلام كےبارہ ميں قرآن مجيد كي خبر كےمتعلق شبہ كےمتعلق !!

تاریخ اشاعت : 08-03-2005

مشاہدات : 7986

سوال

آپ غير مسلموں سےكيسےيہ مطالبہ كرتےہيں كہ وہ عيسى عليہ السلام كےبارہ ميں جوكچھ تمہاري كتاب ميں ہے اس كي تصديق كريں، اور ان اللہ تعالي كا بيٹا ہونے كا انكار كيسے ہے حالانكہ كتاب مقدس اس كي خبرديتي ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شائدہميں يہاں يہ بات دہراني پڑھ رہي ہے كہ: ہم اس پر متنبہ كرتےہيں كہ جن انجيلوں يا كتاب مقدس كےمتعلق ہم بات كررہے ہيں اور جولوگوں كےپاس آج موجود ہے وہ اس كےعلاوہ اور چيز ہے جو اللہ تعالي كي جانب سے اپنے بندے اور رسول عيسى بن مريم عليہ السلام پر نازل كي تھي، وہ جو اللہ تعالي كي جانب سےنازل كي گئي ہے جب كوئي اس كےساتھ كفر كرے يا اس ميں سے كچھ كا كفر كرے توكسي ايك كا بھي ايمان صحيح نہيں ہوسكتا، اور اس پر سوال نمبر ( 47516 ) كےجواب ميں تنبيہ كي جاچكي ہے.

اس كےعلاوہ يہ اور حكمت بالغہ كي بنا پر ابھي تك ہاتھوں كي تحريف اور زبان كي كجي اس كتاب سے كھيل رہي ہے، اور زمانہ قديم سے اس كےساتھ زمانےكي ہير پھير اورحوادث ايام اس پر زيادتي كررہےہيں حتي كہ يہ اصلي اور الہي كتاب ضائع ہوچكي اور لوگوں كےہاتھوں سےختم ہوچكي ہے، اور اس وقت لوگوں كےہاتھوں ميں صرف وہي چيز ہے جو تثليث اور شرك كےاندھيروں كا ملغوبہ ہے اور توحيد كي چمك بھي ہے.اس ميں جھوٹ اور تحريف ايك زمانےسے دوسرے زمانےتك چل رہا ہے اور اس كےساتھ ساتھ صدق اور انبياء كےعلم كےآثار بھي ہيں .

مسلسل كھيل اور لمبي مدت كي وجہ سے يہ بہت مشكل بلكہ مستحيل ہے كہ كوئي شخص اس كتاب ميں سےكسي چيز كوقطعي جھوٹ يا قطعي سچ كہے ليكن جب اس سےقبل حق كي تصديق كرنےوالي اور جواس كےسامنے تصديق كرنےوالي اس كتاب پر پيش كيا جائے جس كا نور الہي جہالت اور خواہشات كےساتھ نہيں ملا، اورنہ اس كا خالص سچ كسي جھوٹ يا كسي غلطي كےساتھ خلط ملط ہواہے اور يہ كتاب قرآن كريم كےعلاوہ كوئي اور نہيں ہوسكتي جس كي حفاظت كا ذمہ اللہ تعالي نےخود لےركھا ہے .

جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:

ہم نے ہي قرآن نازل كيا ہے اور ہم ہي اس كےمحافظ ہيںالحجر ( 9 )

اس قوم كےايك بڑے راہنما اور كتاب مقدس كا دفاع كرنے والےنورٹن نے جرمني كےكچھ لوگوں كے كتاب مقدس پر اعتراضات سےكتاب مقدس كا دفاع كرنے كي كوشش كي تووہ يہ اعتراف كرنےپر مجبور ہوا كہ اس دور ميں جھوٹ سےسچ كو پہچاننا بہت مشكل ہے !!

اوريہاں سےہم سوال كےموضوع كي طرف منتقل ہو كر كہتےہيں:

جو كوئي شخص بھي قرآن مجيد پر ايمان نہ لائے اس كےلئے كوئي ايسي صحيح كتاب نہيں جس پروہ ايمان لائے، اور جو كوئي بھي نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي صداقت وسچائي اور دين اسلام كي صحت ميں طعن كرے اس كے ليے يہ ممكن نہيں كہ وہ اپنےاس دين كےصحيح ہونے كي كوئي دليل دےسكے جس دين پر وہ كاربند ہے.

اس كي وجہ يہ ہےكہ: نبي صلي اللہ عليہ وسلم نےاپني نبوت كےمتعلق جو كچھ بتايا ہے جوشخص بھي اس ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي سچائي اور ان پرآسمان سے نازل كردہ وحي پر طعن كرے حالانكہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم كے ہاتھ پر كئي ايك ايسےمعجزے ظاہر ہوئے جوان كےقول كي سچائي پر دلالت كرتےہيں، اور وہ پوري زندگي اپنےدشمنوں كو كتاب اللہ جو ان كےرب كي وحي كي طرف منسوب كي جاتي ہے كےساتھ چيلنج كرتےرہے كہ وہ اس كتاب كي طرح يا اس ميں سےكچھ حصہ كي طرح ہي بنا لائيں، بلكہ سب انسانوں اور جنوں كو يہ چيلنج كيا كہ وہ سب جمع ہو كرايك دوسرے كي مدد كركے اس قرآن كي طرح لےآئيں.

فرمان باري تعالي ہے:

كہہ ديجئے كہ اگر تمام انسان اور كل جنات مل كر اس قرآن كي مثل لانا چاہيں تو ان سب سے اس كےمثل لانا ممكن نہيں ہے گووہ آپس ميں ايك دوسرے كےمددگار بھي بن جائيں الاسراء ( 88 )

اتني مدت اور ايام گزرنےجانے كےباوجود آج تك يہ نہيں ہوسكااور نہ ہي كوئي اس كي مثل لاسكا ہے، باوجود اس كےكہ دشمنان اسلام نےاس كي بہت مخالفت كي اور يہ تمنا رہي ہے كہ اس كا جھوٹ ثابت كرسكيں، ليكں كہاں اور كيسے، يہ كبھي نہيں ہوسكتا!!

پھر اس كےبعد نبي صلي اللہ عليہ وسلم اپني دشمنوں كےخلاف فتح حاصل كركےمنصور رہے اور يہ كافر نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي حجت اور دليل كو باطل نہيں كرسكے، اور نہ ہي آج تك وہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي خبر ميں كوئي جھوٹ پا سكےہيں، اگرچہ وہ لوگوں سےبات چيت ہي كيوں نہ ہو اس ميں كوئي جھوٹ نہيں پا سكے چہ جائيكہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم اپنے اس رب پر جھوٹ بولتےجس نےانہيں رسول بنا كرمبعوث فرمايا.

افسوس كہ جب وہ اس سب كچھ ميں طعن وتشينع كرتےہيں تو پھر ان كےاس " الہام " كےصحيح ہونے كي دليل كہاں ہے جس پر وہ اعتماد كر كےاپني كتابوں كي تصديق كرتےہيں، باوجود اس كےكہ وہ يہ دعوي نہيں كرتے كہ يہ سب انجيليں عيسي عليہ پر نازل ہوئي يا پھر انہوں نےلكھيں يا لكھوائي ہوں يا پھر ان كي زندگي ميں ہي لكھي گئي ہيں !!

يہ اور اس كےساتھ يہ بھي كہ ان چاروں انجيلوں كےلكھنے والوں كي شخصيت كےبارہ ميں كوئي حقيقي دليل بھي نہيں ملتي كہ وہ كون تھے اور ان كي سيرت اور زندگي كيسي تھي، اور جوكچھ انہوں نےلكھا كيا وہ وحي الہي تھا يا كہ الہام جيسا كہ وہ كہتےہيں، يا پھر يہ ان كےافكار كي اختراع اور ان كےشيطانوں كي طرف سےوحي تھي.

كتاب مقدس كا ايك بہت بڑا مفسر ھاورن كہتا ہے:

( جب يہ كہا جائےكہ كتب مقدسہ اللہ كي جانب سےوحي كردہ ہيں تواس سےيہ مراد نہيں كہ ہر لفظ اور ساري عبارت اللہ كي طرف سےالہام كردہ ہے، بلكہ مصنفين كي بات چيت كےاختلاف اور ان كےبيانات مختلف ہونے سےمعلوم ہوتا ہے كہ انہيں اجازت تھيں ( ؟ ! ) ]يعني ان كےليے اس كي اجازت تھي[ كہ وہ اپني طبعيت اورعادات اورمفہوم كےمطابق لكھيں اور يہ خيال نہيں كيا جاسكتا كہ وہ ہر معاملہ جسے بيان كيا وہ انہيں الہام كيا گيا تھا يا ہر حكم جووہ دے رہے ہيں وہ الہام كردہ تھا ) .

برطانوي دائرۃ المعارف نےاس الہام كےمتعلق علماء نصاري اور ان كے باحثين كےاختلاف كي طرف اشارہ كيا ہے:

كہ آيا كيا سب كتاب مقدس ميں جوكجھ درج ہے وہ الہامي ہے كہ نہيں؟ پھر اس ميں ہي ايك جگہ ( 19 / 20 ) ميں اس پر تعليق چڑھاتےہوئے كہتے ہيں:

( وہ لوگ جويہ كہتےہيں كہ اس ميں درج ہر قول الہامي ہے، وہ اپنے اس دعوي كوآساني اورسھولت سےثابت كرنےپر قادر نہيں ہيں )

اور ہم يہ كہتے ہيں كہ: آساني وسھولت كي بجائے صعوبت اور مشكل كےساتھ بھي نہيں كرسكتے!!

ان انجيلوں ميں دسيوں جگہ كا ايك دوسرے كےمخالف ہونا اورايك دوسرے سےاختلاف كرنا، اور دسيوں تاريخيوں غلطيوں اور ان جھوٹي خبروں كو ديكھتےہوئے جوآج تك پوري نہيں ہوئيں فريڈك گرانٹ نے يہ فيصلہ كيا كہ: ( عہد جديد ايك غيرمتجانس كتاب ہے، اس ليے كہ يہ بہت سےاختلافات كا مجموعہ ہے اور اس كےاول سےليكر آخر تك كوئي ايك نظريہ پر مشتمل نہيں بلكہ كئي ايك مختلف نظريات كي حامل ہے )

اور امريكي دائرہ معارف كا كہنا ہے كہ:

( تين متشابہ انجيلوں اورچوتھي انجيل كےمابين كئي ايك ناحيوں سے تناقضات كي بنا پر بہت اہم اورانتہائي مشكل يہ ہے ان ميں بہت عظيم اختلاف پايا جاتا ہے، حتي كہ يہ اختلاف اس درجہ تك ہے كہ اگر متاشبہ انجيلوں كو موثوق اور معتبر ذرائع سے صحيح شمار كرليا جائےتو اس بنا پر يہ لازم آتا ہے كہ انجيل يوحنا صحيح نہيں ) .

يہ اس اعتبار سےكہ ان انجيلوں ميں انجيل يوحنا ہي ايسي انجيل ہے جو عقيدہ تثليث كوبہت شدت سےثابت كرتي ہے، بلكہ وہ اس بات كا اعتراف كرتےہيں كہ يہ انجيل تاليف ہي اسي عقيدہ كي بنا پر كي گئي ہے جس عقيدہ سے دوسري انجيليں خالي ہيں، اور اس كےبارہ ميں لوگوں كا اختلاف قطعي ہے !!

اور كيتھولك گرجا جو كہ الہامي عقيدہ پر بہت شدت سے عمل پيرا ہے كہ كتاب مقدس كي اصل الہام ہے، اس نےبھي ويٹيگن كےمجمع ( اكيڈمي ) ميں سن ( 1869-1870 ) ميلادي ميں اس پر مہر تصديق ثبت كي اور پھر ايك صدي كے بعد يہي حقائق سامنےآئے كہ اس كا اعتراف كرليا جائے اور ويٹيگن ميں ہي دوسري مسكوني مجمع ( مجمع اس تاليف كو كہتےہيں جسے نصاري نے ديني امور كےلئے منظور كيا ہو ) جو كہ ( 1962-1965 ) ميں ہوئي يہ اعتراف كيا گيا كہ:

يہ كتابيں بہت سي غلط اشياء اور كچھ باطل پر مبني ہيں، جيسا كہ فرانسيسي ريسرچ كرنےوالے ڈاكٹر مورس بوكائي جو كہ بعد ميں مسلمان ہو گئے تھے نے بيان كيا ہے.

پھر يہ بات بھي ہے كہ جس كسي نےبھي نبي صلي اللہ عليہ وسلم كے كسي ايك معجزہ اور ان كےحالات اورسيرت جو كہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم كي صداقت پر دلالت كرتي ہے كو جھٹلايا وہ ان انجيلوں كےلكھنےوالوں جو كہ مزعوم رسول مانے جاتےہيں كےمعجزوں كوكيسے ثابت كرسكتا ہے يا پھر انہيں ان كےدعوى الہام ميں كيسے مدلل مان سكتاہے؟ !

ان كےگمان كےمطابق كتاب مقدس كي گواہي كي دليل سے الہام كا دعوي اور اس ميں جوكچھ ان كےمعجزات كا ذكر ہے وہ سچا ہے، اور كتاب مقدس اور اس ميں جوكچھ ہے وہ سچ ہے كيونكہ يہ الہام ہے!!

تواس طرح ان كا استدلال باطل كي جانب جا كر ختم ہوجاتا ہے، جيسا كہ ريس سے اپنےدائرہ معارف ميں بعض محققين سےذكر كيا ہے: لھذا كتاب مقدس صحيح ہے اس ليےكہ يہ الہام ہے اور ان كا الہام سچا ہے كيونكہ كتاب مقدس اس كي گواہي ديتي ہے !!

اور جس نے قرآن مجيد جو كہ تواتر كےساتھ منقول اور زمين كےمشرق ومغرب ميں پھيلا ہوا ہے اور نسل در نسل چل رہا ہے اور كتابت اور حفظ كے اعتبار سےمحفوظ ہے اس كا كوئي ايك نسخہ بھي مختلف نہيں اور نہ ہي اس ميں كوئي تعارض پايا جاتا ہے، جس نےبھي اسے جھٹلايا وہ اس انجيل كو كيسے ثابت كرسكتا ہے جس پر وہ اعتماد كرتا پھرتا ہے؟ جس كا وفات مسيح سے دو صدي قبل صرف اشارہ ہي ملتا ہے چہ جائيكہ وہ بعينہ موجود ہو، جيسا كہ جرمني كےنورٹن كا كہنا ہے.

پھر چوتھي صدي ميں عيسائيوں پر جو مصائب اور تكاليف آئيں ان كے گرجےمنہدم كرديےگئے اور كتابيں جلادي گئيں جس كي بنا پراس كےبعد پائي جانےوالي كتابوں كي ثقاہت ختم ہوگئي، اس ظلم وستم اور چھپ جانے والي مدت ميں يہ كتابيں كس كےپاس تھيں اور كب مليں، ہم تك كيسے پہنچيں، اور كس طرح ، كس طرح ..... اس كےبارہ ميں بہت سےسوالات ہيں جوگردش كررہے ہيں، اور برطانوي دائرۃ المعارف نےاس كي تعبير كچھ اس طرح كي ہے:

( چاروں انجيلوں كي قانوني حيثيت حاصل ہونے كےبارہ ميں ہمارے پاس كوئي يقيني معلومات اورمعرفت نہيں ہيں اور نہ ہي اس جگہ كےمتعلق كوئي معلومات ہيں جہاں يہ فيصلہ ہوا )

اور اس مترجم كےمتعلق معلومات كي جھالت جس نےاسے اصلي زبان سے اس زبان ميں ترجمہ كيا اس كےعلم اور دين كےمتعلق كيا معلومات ہيں اور كيا وہ اس كا اہل بھي تھا كہ نہيں آيا اس كا علم اوردين اس كام كےلئےكافي تھا اور ہم اس كي تاكيد كيسے كريں كہ اس نےجو كچھ نقل كيا ہے كيا وہ واقعي صحيح ہے ، يہ سب كچھ ايك اور رنگ ہے !!

( اس جواب ميں ہم نے جو كچھ اجمالا بيان كيا ہے اس كي تفصيل كے ليے آپ شيخ رحمت اللہ ہندي كي كتاب اظہار الحق اور شيخ محمد حميل غازي كي كتاب مناظرۃ بين الاسلام والنصرانيۃ اور دوسري كتابوں كا مراجعہ كريں)

اللہ تعالي ہميں اور آپ كو صراط مستقيم كي ہدايت نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب