جمعہ 17 شوال 1445 - 26 اپریل 2024
اردو

نيند ميں خراٹے كى بنا پر طلاق

تاریخ اشاعت : 12-01-2011

مشاہدات : 4620

سوال

كيا نيند ميں عورت كے خراٹے لينے كى بنا پر اسے طلاق دينا جائز ہے، اور كيا مرد كے خراٹے لينے كى بنا پر عورت كے ليے طلاق كا مطالبہ كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خراٹے ايسا سبب نہيں جو خاوند اور بيوى كے مابين نكاح فسخ كرنا مباح كرتا ہو.

ليكن اگر خاوند اور بيوى ميں سے كسى ايك كے خراٹے سے دوسرے شخص كو واضح ضرر ہوتا ہو، جيسا كہ بعض اوقات ايك ہى جگہ سونا مشكل ہو جاتا ہے، تو اس حالت ميں خاوند كے ليے بيوى كا خراٹے لينا اسے طلاق دينے كے ليے سبب بن سكتا ہے، اور اسى طرح بيوى كے ليے بھى طلاق كا مطالبہ كرنے كا سبب بن سكتا ہے.

ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى بغير كسى سختى اور تكليف كے اپنے خاوند سے طلاق كا مطالبہ كيا تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 2035 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" الباس: شدۃ، يعنى شدت و سختى كى حالت كے علاوہ جو اسے عليحدگى اور جدائى كى طرف لے جائے، مثلا اسے خوف ہو كہ وہ اس كے ساتھ رہتے ہوئے اللہ كى حدود كو قائم نہيں ركھ سكتى جس ميں اسے حسن صحبت اور حسن معاشرت قائم ركھنا ہو ليكن وہ اسے ناپسند كرنے كى بنا پر ايسا نہ كر سكے " انتہى

ديكھيں: فيض القدير ( 3 / 138 ).

بلاشك و شبہ خراٹوں كى آواز ڈسٹرب كرنے كا باعث بنتى ہے، جو نيند سے بھى روك ديتى ہے، اور بعض اوقات تو اتنى شديد ہوتى ہے كہ بعض لوگ اسے برداشت ہى نہيں كر سكتے.

اس طرح كى حالت ميں ہم يہ نصيحت كرتے ہيں كہ خاوند اور دونوں كو ہى صبر و تحمل سے كام لينا چاہيے، خاص كر يہ خراٹے تو انسان كے ارادہ سے نہيں بلكہ غير ارادى طور پر آتے ہيں اور ان پر اس كا كوئى كنٹرول بھى نہيں ہے.

ليكن اس كے ساتھ اس بيمارى كے علاج كى كوشش كرنى چاہيے چاہے سانس كى نالى ميں زائد ريشوں كو ختم كرانے كا آپريشن كرا كر يا پھر اس كا كوئى اور ممكن علاج كرايا جائے.

ديكھيں: الموسوعۃ العربيۃ العالميۃ.

چنانچہ اگر اس كے علاج ميں تاخير ہو يا مشكل ہو تو پھر يہ ممكن ہے كہ ان اوقات ميں جب خراٹے زيادہ ہوں تو خاوند اور بيوى عليحدہ عليحدہ رہيں، يا پھر جب دوسرے فريق كو اس كى آواز سے ضرر ہو، حتى كہ وہ اس چيز كا عادى ہو جائے، اور يہ وہ حل ہے جس كو بہت سے افراد اپنا چكے ہيں، اور اس طرح كى حالت كے ساتھ اكٹھے رہنا ممكن ہوا ہے.

ہمارا اعتقاد ہے كہ اگر انسان اس مشكل كو حل كرنے كے ليے سب سے پہلا حل ہى طلاق سوچ لے تو پھر بہت سارے بلكہ ہزاروں گھر تباہ ہو كر رہ جائيں گے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہمارے حالات كى اصلاح فرمائے اور ہمارے مريض افراد كو شفايابى نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب