منگل 25 جمادی اولی 1446 - 26 نومبر 2024
اردو

كيا غسل طہارت كے بعد وضوء كرنا ضرورى ہے ؟

تاریخ اشاعت : 11-02-2007

مشاہدات : 8795

سوال

كيا ميرے ليے غسل كے بعد وضوء كرنا ضرورى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو آپ اس سے غسل طہارت مراد لے رہى ہيں تو اس كا جواب درج ذيل ہے:

صحيح بخارى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم غسل جنابت كرتے تو اپنے ہاتھوں سے ابتدا كرتے اور ہاتھ دھو كر پھر نماز والے وضوء كى طرح وضوء كرتے، پھر پانى ميں اپنى انگلياں ڈال كر پانى بالوں كى جڑوں تك پہنچاتے اور خلال كرتے، اور پھر اپنے سر پر تين چلو پانى بہا كر اپنے سارے جسم پر پانى بہاتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 248 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

بطور شرف وضوء كے اعضاء كو پہلا دھويا ہے، اور اس ليے بھى كہ طہارت كبرى اور صغرى دونوں كى صورت حاصل ہو جائے...

ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 248 ).

اور ايك مقام پر لكھتے ہيں:

امام بخارى رحمہ اللہ نے اس سے يہ بھى استدلال كيا ہے كہ: غسل جنابت ميں ايك بار واجب ہے، اور جو شخص غسل كى نيت سے وضوء كرے اور پھر جسم كے باقى اعضاء پر پانى بہائے تو اس كے ليے وضوء كى تجديد مشروع نہيں، ليكن اگر وضوء ٹوٹ جائے تو كرنا ہوگا.

ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 362 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

غسل جنابت كے دو طريقے ہيں:

ايك طريقہ كفائت ہے، دوسرا طريقہ كمال ہے، چنانچہ جو خرقى نے يہاں بيان كيا ہے وہ مكمل طريقہ ہے، ہمارے بعض اصحاب كا كہنا ہے كہ كامل طريقہ ميں دس اشياء كا ہونا چاہيے، نيت، بسم اللہ، تين بار ہاتھ دھونا، جہاں نجاست لگى ہے اسے دھونا، وضوء كرنا، سر پر تين چلو پانى ڈال كر بالوں كى جڑوں كو تر كرنا، سارے جسم پر پانى بہانا، دائيں طرف سے شروع كرنا، جسم كو ہاتھ سے ملنا، غسل والى جگہ سے دوسرے جگہ ہو كر اپنے پاؤں دھونا.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 217 ).

پانى بہانے سے قبل سر اور داڑھى كے بالوں كا پانى كے ساتھ خلال كرنا مستحب ہے، امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث كے مطابق ہونا چاہيے وہ اس طرح ہے كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب غسل جنابت كرتے تو اپنے ہاتھ تين بار دھوتے اور نماز والا وضوء كرتے، پھر اپنے ہاتھ سے بالوں كا خلال كرتے حتى كہ جب محسوس كرتے كہ جلد تر ہو گئى ہے تو اس پر تين بار پانى بہاتے پھر سارا جسم دھوتے "

متفق عليہ.

اور ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غسل جنابت كے ليے پانى ركھا تو پانى اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور انہيں تين بار دھويا، پھر اپنے دائيں ہاتھ سے بائيں پر پانى ڈال كر عضو تناسل دھويا، پھر مٹى يا ديوار پر دو يا تين بار ہاتھ ملا پھر كلى كى اور ناك ميں پانى ڈالا اور چہرہ اور بازوں دھوئے، پھر اپنے سر پر پانى ڈالا، اور پھر اپنے جسم پر پانى بہايا اور اس جگہ سے ہٹ كر اپنے پاؤں دھوئے، تو ميں توليہ لے كر آئى ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے استعمال نہ كيا، اور اپنے ہاتھ سے پانى جھاڑنے لگے "

متفق عليہ.

ان دونوں حديثوں ميں بہت سى خصلتيں بيان ہوئى ہيں، اور دائيں جانب سے اس ليے شروع كرنا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم طہارت ميں دائيں طرف سے شروع كرنا پسند فرمايا كرتے تھے، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے:

" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم غسل جنابت كرتے تو ايك برتن منگواتے اور اسے اپنے ہاتھوں سے پكڑتے اور پھر اپنے سر كى دائيں طرف سے شروع كرتے، پھر اسے ہاتھوں سے پكڑ كر اپنے سر پر بہاتے "

متفق عليہ.

غسل كرنے كے بعد پاؤں دھونے كے متعلق يہ ہے كہ امام احمد جگہ كے متعلق اختلاف كرتے ہيں، ايك روايت ميں ان كا كہنا ہے كہ ميں وضوء كے بعد دھونا پسند كرتا ہوں، كيونكہ ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں يہى ہے.

اور ايك روايت ميں كہتے ہيں: عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث پر عمل كيا جائيگا، اس ميں بيان ہوا ہے كہ انہوں نے غسل كرنے سے قبل نماز والا وضوء كيا... واللہ تعالى اعلم.

ان كا كہنا ہے:

اور اگر وہ ايك بار دھوئے اور سر اور سارے جسم پر پانى بہا لے اور وضوء نہ كرے تو كلى كرنے اور ناك ميں پانى چڑھانے اور اس سے غسل اور وضوء كى نيت كر كے سارے جسم پر پانى بہا لے تو يہ كافى ہوگا، ليكن وہ اختيار كا تارك ہے.

يہ طريقہ كفائت والا طريقہ ہے، اور پہلا طريقہ مختار يعنى بہتر ہے، اسى ليے انہوں نے كہا ہے كہ وہ اختيار كا تارك ہے، يعنى جب وہ اس پر اقتصار كرے تو افضل اور اولى ترك كرنے كے ساتھ كافى ہوگا.

اور ان كا يہ كہنا كہ:

اس سے غسل اور وضوء كى نيت كرے: يعنى جب وہ دونوں كى نيت كرے تو غسل كافى ہوگا، اسے امام احمد نے بيان كيا ہے، اور ان سے ايك دوسرى روايت يہ بھى ہے كہ: غسل وضوء سے كفائت نہيں كرےگا، بلكہ اسے غسل سے قبل يا بعد ميں وضوء ضرور كرنا ہوگا، يہ امام شافعى كا بھى ايك قول ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا ہى كيا، اور اس ليے بھى كہ جنابت اور حدث دونوں ہى پائى گئى ہيں اس ليے دونوں طہارت كا ہونا بھى ضرورى ہے، جس طرح كہ عليحدہ ہوں.

اور ہمارى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

تم نشہ كى حالت ميں ہو تو نماز كے قريب مت جاؤ حتى كہ تمہيں علم ہو كہ تم كيا كہہ رہے ہو، اور نہ ہى جنابت كى حالت ميں حتى مگر راہ عبور كرنے والے ہو، حتى كہ غسل كر لو النساء ( 43 ).

اللہ تعالى نے يہاں غسل كو نماز كى ممانعت كے ليے غايت مقرر كيا ہے اور جب غسل كر لے تو پھر ممانعت نہيں، اور اس ليے بھى كہ يہ دونوں عبادتيں ايك ہى جنس سے ہيں اس ليے حج ميں عمرہ كى طرح چھوٹى عبادت بڑى عبادت ميں داخل ہو جائيگى.

ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

غسل جنابت كرنے والا شخص جب وضوء نہ كرے، بلكہ سارے جسم پر پانى بہا لے تو اس نے اپنے اوپر فرض ادا كر ديا، كيونكہ اللہ تعالى نے جنبى شخص پر غسل جنابت فرض كيا ہے، وضوء نہيں، فرمان بارى تعالى ہے:

اور اگر تم حالت جنابت ميں ہو تو غسل كرو .

اور يہ اجماع ہے اس ميں كوئى اختلاف نہيں، ليكن علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر عمل كرتے ہوئے غسل سے قبل وضوء كرنا مستحب ہے، كيونكہ يہ غسل كے ممد و معاون بھى ہے اور اسے تھذيب بھى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد