جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

مختصر لباس پہننا اور عورت كے سامنے عورت كے ستر كى حدود

تاریخ اشاعت : 14-01-2008

مشاہدات : 12731

سوال

كچھ عورتيں بہت ہى مختصر اور تنگ لباس زيب تن كرتى ہيں جو ان كے پرفتن اعضاء واضح كرتا ہے، آستينوں كے بغير ہونے كى بنا پر عورت كا سينہ اور كمر بھى ظاہر كرتا ہے، اور تقريبا يہ لباس نہ ہونے كے برابر اور شبہ العاريہ ہے.
جب ہم انہيں نصيحت كرتى ہيں تو وہ جواب ديتى ہيں كہ ہم تو يہ لباس صرف عورتوں كے سامنے ہى زيب تن كرتى ہيں، اور عورت كے سامنے عورت كا ستر گھٹنے سے ليكر ناف تك ہے.
اس سلسلہ آپ كى نظر ميں شريعت اسلاميہ كى رائے كيا ہے، آپ كتاب و سنت كے دلائل كو مد نظر ركھتے ہوئے محرم مردوں كے سامنے يہ لباس زيب تن كرنے كا حكم واضح كريں ؟
اللہ تعالى سب مسلمان مرد و عورت كى جانب سے آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، اور زيادہ سے زيادہ اجروثواب سے نوازے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس كے جواب ميں يہ كہا جائيگا كہ:

صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جہنميوں كى دو قسميں ہيں جنہيں ميں نے ابھى تك نہيں ديكھا، ايك وہ قوم جن كے ہاتھوں ميں گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے وہ اس سے لوگوں كو مارينگے، اور وہ لباس پہننے والى ننگى عورتيں جو خود مائل ہونے والى اور دوسروں كو مائل كرنے والى، ان كے سر بختى اونٹوں كى مائل كوہانوں كى طرح ہونگے، وہ نہ تو جنت ميں داخل ہونگى اور نہ ہى جنت كى خوشبو ہى پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو اتنى اتنى مسافت سے پائى جاتى ہے "

اہل علم نے " الكاسيات العاريات " لباس تو پہنا ہو گا ليكن درحقيقت وہ ننگى ہونگى كى شرح كرتے ہوئے كہا ہے كہ: تنگ لباس پہننے والى، يا پھر باريك لباس پہننے والى ہونگى جن سے لباس كے نيچے بھى نظر آتا ہو، يا پھر مختصر لباس پہننے والياں مراد ہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عورتوں كا اپنے گھروں ميں لباس ايسا ہوتا تھا جو ان كے ٹخنوں اور قدموں، اور ہاتھوں سميت سب كو چھپا كر ركھتا تھا، ليكن جب وہ گھروں سے باہر بازار جاتيں تو يہ معلوم ہے كہ صحابہ كرام كى عورتيں اتنا بڑا اور كھلا لباس پہنتى تھيں جو زمين پر گھسٹ رہا ہوتا تھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں ٹخنوں سے ايك ہاتھ نيچے كپڑا ركھنے كى اجازت دى تھى كہ وہ اس سے زيادہ مت ركھيں.

اور بعض عورتوں كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے جو شبہ پيدا ہوا ہے:

" عورت عورت كے ستر اور شرمگاہ كو مت ديكھے، اور مرد مرد كى شرمگاہ مت ديكھے، اور عورت كے ليے عورت كا ستر ناف اور گھٹنے كے درميان ہے "

كہ يہ عورت كے مختصر لباس پر دلالت كرتا ہے، يعنى وہ مختصر لباس پہن سكتى ہے، يہ صحيح نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا: " عورت كا لباس گھٹنے اور ناف كے درميان ہے " حتى كہ اسميں دليل ہو، ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہ فرمايا كہ عورت كسى دوسرى عورت كى شرمگاہ مت ديكھے.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ديكھنے والى كو منع كيا ہے، كيونكہ اس نے كھلا لباس پہن ركھا ليكن بعض اوقات قضائے حاجت يا كسى اور سبب كى بنا پر اس كا ستر ننگا ہو سكتا ہے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورت كو كسى دوسرى عورت كے ستر كى جانب ديكھنے سے منع فرما ديا.

اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ فرمايا كہ: " كوئى مرد كسى مرد كى شرمگاہ مت ديكھے "

تو كيا صحابہ كرام گھٹنوں سے ليكر ناف تك چادر باندھتے، يا سلوار اور پائجامہ پہنتے تھے ؟

اور كيا اب يہ معقول ہے كہ كوئى عورت ايسا لباس پہن كر نكلے جو صرف اس كے گھٹنے اور ناف كے مابين حصہ كو ہى چھپا رہا ہو ؟

كوئى شخص بھى يہ نہيں كہہ سكتا، اور نہ ہى كہتا ہے، اور كفار كى عورتوں كے علاوہ ايسا كسى كے بھى ہاں نہيں، اور جو بعض عورتوں پر ملتبس ہوا ہے اس كى كوئى اصل اور دليل نہيں.

يعنى كچھ عورتوں نے جو اس حديث سے يہ مفہوم ليا ہے اس كى كوئى اصل اور دليل نہيں اور نہ ہى يہ مفہوم صحيح ہے، اور پھر حديث كا معنى تو صاف اور ظاہر ہے، كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا كہ: عورت كا لباس گھٹنے اور ناف كے مابين ہو.

اس ليے عورتوں كو اللہ كا خوف ركھتے ہوئے ڈرنا چاہيے، اور وہ شرم و حياء كے زيور سے آراستہ ہوں جو كہ عورت كى خلقت ميں شامل ہے، اور جو ايمان كا بھى ايك حصہ ہے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے:

" شرم و حياء ايمان ميں سے ہے "

اور جس طرح كہ عورت ايك ضرب المثل تھى، اس ليے ضرب المثل ميں يہ كہا جاتا ہے:

( مخصوص كمرہ ميں كنوارى عورت سے بھى زيادہ شرم و حياء والا )

يہ علم ميں نہيں بلكہ جاہليت كے دور سے بھى يہ نہيں ملتا كہ عورتيں گھٹنے اور ناف تك كا لباس ہى پہنتى ہوں، نہ تو يہ مردوں ميں تھا اور نہ ہى عورتوں ميں، تو كيا يہ عورتيں مسلمانوں كى ايسى عورتيں بننا چاہتى ہيں جو دور جاہليت كى عورتوں سے بھى زيادہ بدصورت اور قبيح بننا چاہتى ہيں.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

لباس اور چيز ہے، اور شرمگاہ اور ستر كو ديكھنا اور چيز، عورت كا عورت كے ساتھ مشروع لباس يہ ہے كہ اس كے ہاتھ اور ٹخنے تك چھپے ہوئے ہوں، مشروع تو يہى ہے، ليكن اگر عورت كى كسى ضرورت و كام وغيرہ كى بنا پر اپنا لباس اوپر اٹھانا اور اكٹھا كرنا پڑے تو وہ عورت كے سامنے گھٹنے تك، اور اسى طرح اگر بازوں كى ضرورت پڑے تو وہ كہنى تك صرف بقدر ضرورت اكٹھا كر سكتى ہے.

ليكن اسے عام لباس ميں شامل كر لينا اور اس كى عادت بنا لينا جائز نہيں، حديث كسى بھى حالت ميں اس پر دلالت نہيں كرتى، اسى ليے ديكھنے والى كو خطاب كيا گيا ہے، نہ كہ جسے ديكھے جا رہا ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو اس حديث ميں مطلقا لباس كے ذكر كو چھوا تك بھى نہيں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا كہ: عورت كا لباس گھٹنے اور ناف كے درميان " تا كہ ان عورتوں كو يہ شبہ ہو.

اور محرم مرد كا اپنى محرم عورت كو ديكھنے كا مسئلہ بھى عورت كا كسى دوسرى عورت كو ديكھنے جيسا ہى ہے، عورت اپنے محرم مرد كے سامنے سر گردن، اور پاؤں، ہاتھ بازو، اور پنڈلى وغيرہ ننگى كر سكتى ہے، ليكن وہ لباس چھوٹا نہ كرے.

ماخذ: ماخوذ از: فتاوى الشيخ محمد بن صالح العثيمين ديكھيں: مجلۃ الدعوى ( عربى ) عدد نمبر ( 1765 ) صفحہ ( 55 )