ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

دفتر ميں عورتوں سے مخاطب ہونے كا حكم

تاریخ اشاعت : 11-06-2005

مشاہدات : 8518

سوال

دفتر ميں بعض اوقات مجھے مجبورا عورتوں سے كلام كرنا پڑتى ہے، كيا اس ميں مجھ پر كوئى گناہ تو نہيں؟
اور كيا اس كمپنى ميں ميرى ملازمت شرعا جائز ہے، يا مجھے كوئى اور كام تلاش كرنا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ عورتوں كا فتنہ بہت عظيم ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:

" ميرے بعد مردوں كے ليے سب سے زيادہ نقصان دہ فتنہ عورتوں كا ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4808 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2704 )

اس ليے مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اس فتنہ سے بچے اور اس ميں لے جانے والے اسباب سے بھى دور رہے، اس كا سب سے بڑا سبب نظر اور اختلاط ہے.

شيخ عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

فرمان بارى تعالى ہے:

مومن مردوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنى نگاہيں نيچى ركھيں، اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، يہ ان كے ليے زيادہ پاكيزگى كا باعث ہے، بلا شبہ اللہ تعالى جو كچھ وہ كر رہے ہيں اس كى خبر ركھنے والا ہے، اور مومن عورتوں سے بھى كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى ظاہرى زيبائش كے علاوہ كچھ نہ ظاہر كريں، اور اپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے لڑكوں كے، يا اپنے خاوندوں كے لڑكوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ ان كى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانوں تم سب كے سب اللہ كى جناب ميں توبہ كرو تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 30 - 31 ).

اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ حكم ديا ہے كہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں تك يہ حكم پہنچا ديں كہ وہ سب اپنى نگاہيں اور نظروں كى حفاظت كريں اور انہيں نيچا ركھيں، اور زنا جيسى قبيح بيمارى سے اپنى شرمگاہوں كى بھى حفاظت كريں، پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے وضاحت كرتے ہوئے فرمايا كہ ان كے ليے ايسا كرنا بہت پاكيزہ اور بہتر ہے.

اور يہ بات تو معلوم شدہ ہے كہ فحاشى سے اپنى شرمگاہ كى حفاظت يہ ہے كہ فحش كام تك جانے والے اسباب اور وسائل سے بھى اجتناب كيا جائے، اور اس ميں كوئى شك وشبہ نہيں كہ نظريں دوڑانا، اور دفاتر اور كام كاج ميں مرد و عورت كا آپس ميں اختلاط فحاشى ميں پڑنے كا سب سے بڑا وسيلہ اور سبب ہے.

اور يہ دونوں چيزيں ہى مومن شخص سے مطلوب ہيں، اور ان كا مومن شخص ميں پايا جانا مستحيل ہے، كہ وہ ايك اجنبى اور غير محرم عورت كے ساتھ دوست كى طرح كام كرتا ہوا نظر آئے، يا پھر وہ عورت ملازمت ميں اس كى ساتھى ہو.

لھذا اس عورت كا اس ميدان ميں اس عورت كا كود پڑنا، يا اس كام كاج ميں مرد كا عورت كے ساتھ كام كرنے ميں كودنا، ايسا معاملہ ہے جس ميں بلاشك و شبہ نظريں نيچى ركھنا اور شرمگاہ كى حفاظت كرنا، اور اپنے نفس كو پاكيزہ اور طاہر ركھنا مستحيل اور ناممكن ہے.

اور اسى طرح اللہ تعالى نے مومن عورتوں كو نظريں نيچى ركھنے اور شرمگاہوں كى حفاظت، اور ظاہرى زيبائش و زينت كے علاوہ كچہ ظاہر نہ كرنے كا حكم ديا ہے، اور انہيں اللہ تعالى نے يہ بھى حكم ديا كہ وہ اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر ڈال كر ركھيں، جس سے اس كا سر اور چہرہ بھى چھپا رہے گا؛ كيونكہ گريبان چہرے، اور سر كى جگہ ہے.

لہذا جب عورت گھر كى چار ديوارى سے نكل كر دفاتر اور ملازمت كے ميدان ميں نكلے گى تو پھر نظريں كيسے نيچى رہ سكتى ہيں، اور شرمگاہ كى حفاظت كيسے ہو گى، اور زينت و زيبائش كو كيسے چھپايا جاسكے گا، اور مرد و عورت اختلاط سے كيسے بچيں گے؟

بلكہ اختلاط اور مرد و عورت كا آپس ميں ميل جول تو ان بيماريوں اور غلط و فحش كاموں ميں پڑنے كا كفيل و ضامن ہے.

اور يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ مسلمان عورت ايك اجنبى مرد كے ساتھ شانہ بشانہ ملازمت اور كام كرتے ہوئے اپنى نگاہيں نيچى ركھے؟ اور دليل يہ ہو كہ وہ تو مرد كے ساتھ كام ميں شريك ہے، اور جو كچھ وہ كرتا ہے اس ميں برابر كى شريك ہے؟ . انتھى

" عورت كا مرد كے ساتھ ميدان عمل ميں شريك ہونے كے خطرات "

خلاصہ يہ ہے كہ:

اگر تو ملازمت ميں نظريں اور اختلاط مستمر اور جارى رہتا ہے، تو پھر آپ كو يہى نصيحت كى جاتى ہے كہ اس كام كو ترك كر كے كوئى اور كام تلاش كرليں، يا پھر اسى آفس ميں كسى اور جگہ منتقل ہو جائيں جہاں عورتيں نہ ہوں.

اور اگر ملازمت ميں ہر وقت اختلاط نہيں، ہوتا، اور نظريں ہر وقت نہيں ملتيں، بلكہ بعض اوقات وقتا فوقتا آپ كے كام ميں ايسا ہو جاتا ہے: تو يہ ملازمت جارى ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ نظريں نيچى ركھيں جائيں، اور جتنى جلدى ہو سكے كام نپٹايا جائے، اور جتنا بھى ممكن ہو سكے فتنہ و فساد كے اسباب سے دور رہا جائے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں ظاہرى اور باطنى سب فرقوں سے بچا كر ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب