سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

والدين كے تركہ كى بيٹے اور بيٹيوں ميں تقسيم

تاریخ اشاعت : 15-01-2020

مشاہدات : 8221

سوال

والدين كا مال چار بيٹوں اور ايك بيٹى پر تقسيم كرنا ہے، اس ليے شريعت اسلاميہ كے مطابق ہر ايك كا حصہ كيا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر والدين ميں سے كوئى ايك فوت ہو جائے، يا دونوں اور ان كے ورثاء ميں چار بيٹوں اور ايك بيٹى كے علاوہ كوئى اور شامل نہ ہو تو پھر ان كے مابين تركہ كى تقسيم اس طرح ہو گى كہ ايك لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر حصہ ديا جائيگا، يعنى بيٹى كے ليے ايك اور بيٹے كے ليے دو حصے.

تو يہ تركہ نو حصوں ميں تقسيم كر كے ان ميں سے ايك حصہ بيٹى كو اور باقى آٹھ حصے چار بيٹوں ميں تقسيم كيے جائينگے، اور ہر بيٹے كو دو دو حصے آئينگے.

يہ تقسيم ميت كے كفن دفن كا خرچ اور اس ذمہ لوگوں كے مستق قرض كى ادائيگى، اور اگر متوفى نے كوئى وصيت كى ہو تو اسے پورا كرنے كے بعد ہوگى.

اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

اللہ تعالى تمہيں تمہارى اولاد كے بارہ ميں حكم كرتا ہے كہ ايك لڑكے كا حصہ دو لڑكيوں كے برابر ہے، اور اگر صرف لڑكياں ہى ہوں اور دو سے زيادہ ہوں تو پھر ان كے مال متروكہ كا دو تہائى حصہ ملےگا، اور اگر ايك ہى لڑكى ہو تو اس كے ليے آدھا ہے، اور ميت كے ماں باپ ميں سے ہر ايك كے ليے چھوڑے ہوئے مال كا چھٹا حصہ ہے اگر ميت كى اولاد ہو، اور اگر اولاد نہ ہو اور اس كے وارث اس كے ماں باپ بنيں تو اس كى ماں كے ليے تيسرا حصہ ہے، ہاں اگر ميت كے كئى بھائى ہوں تو پھر اس كى ماں كا چھٹا حصہ ہے، يہ حصے اس وصيت كى تكميل كے بعد ہيں جو مرنے والا كر گيا ہے، يا ادائے قرض كے بعد النساء ( 11 ).

اس تقسيم كى وضاحت درج ذيل مثال سے كچھ اس طرح ہوگى:

فرض كريں كہ اگر ميت كى تجھيز و تكفين، اور اس كا قرض ادا كرنے اور اس كى وصيت پورى كرنے كے بعد اس كا تركہ مثلا نو ہزار ( 9000 ) ہو تو بيٹى كے ليے ايك ہزار ( 1000 ) اور ہر بيٹے كو اس لڑكى سے ڈبل حصہ يعنى دو ہزار ( 2000 ) ديا جائيگا.

ليكن اگر اولاد كے ساتھ كوئى اور بھى وارث ہو مثلا متوفى كا باپ يا اس كى ماں، يا اس كا دادا، يا دادى تو انہيں ان كا حصہ دينے كے بعد باقى تركہ بيٹوں اور بيٹى ميں مذكورہ طريقہ سے ہى تقسيم كيا جائيگا.

تنبيہ:

خاوند اور بيوى ميں سے كسى ايك كى موت كى صورت ميں زندہ رہنے والا فوت شدہ كا وارث ہوگا، صورت مسئولہ ميں اس طرح ہوگا كہ اگر خاوند سے پہلے بيوى فوت ہوئى ہو تو پھر خاوند كو چھوتھا حصہ ملےگا، اور اگر خاوند بيوى سے پہلے فوت ہوا ہو تو بيوى كو آٹھواں حصہ ملےگا.

اور باقى مانندہ تركہ اولاد ميں كچھ اس طرح تقسيم ہوگا كہ لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر ديا جائيگا، جيسا كہ بيان كيا جا چكا ہے كہ خاوند اور بيوى ميں سے موجود شخص اپنا حصہ لينے كے بعد اولاد ميں تقسيم كريگا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب