سوموار 3 جمادی اولی 1446 - 4 نومبر 2024
اردو

بيع تورق كا حكم

تاریخ اشاعت : 27-03-2007

مشاہدات : 14158

سوال

ان آخرى ايام ميں ( بنك الاھلى التجارى ) نيشنل تجارتى بنك نے سامان قسطوں ميں فروخت كرنا شروع كيا ہے، اور پھر خريدار اسے كسى تيسرے فريق كو نقد فروخت كر سكتا ہے، تو كيا يہ طريقہ صحيح ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ طريقہ علماء كے ہاں " التورق " كے نام سے جانا جاتا ہے، جو كہ ورق يعنى چاندى سے ماخوذ ہے، كيونكہ جس نے سامان خريدا ہے وہ صرف پيسے اور رقم بنانے كے ليے سامان خريد رہا ہے.

علماء كرام كا اس قسم كے لين دين ميں اختلاف پايا جاتا ہے.

اور جمہور علماء كرام اسے مباح قرار ديتے ہيں كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا عمومى فرمان ہے:

اور اللہ تعالى نے خريد و فروخت كو حلال كيا ہے .

اور اس ليے بھى كہ اس ميں سود كى صورت اور مقصد ظاہر نہيں ہوتا " انتہى مختصرا.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 14 / 148 ).

اور اس ليے بھى كہ خريدار سامان اس ليے خريد رہا ہے تا كہ اس سے فائدہ حاصل كرے يا تو وہ بعنيہ اس چيز سے فائدہ حاصل كرےگا، يا پھر اس كى قيمت سے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے يہى اختيار كيا ہے.

فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" رہا تورق كا مسئلہ تو اس ميں اختلاف ہے، اور صحيح يہى ہے كہ يہ ( تجارت ) جائز ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 161 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور تورق كا مسئلہ سود ميں شامل نہيں ہوتا، صحيح يہى ہے عمومى دلائل كى رو سے يہ حلال ہے، اور اس ليے بھى كہ اس ميں موجودہ ضرورت پورى كرنا، اور آسانى و مشكل سے چھٹكارا ہے، ليكن اگر كوئى شخص اسى شخص كو فروخت كرے جس سے وہ چيز خريدى ہے تو يہ جائز نہيں، بلكہ يہ سودى معاملات ميں شامل ہوگى، اور اسے مسئلہ العينۃ كے نام سے موسوم كيا جائيگا، جو كہ حرام ہے، كيونكہ يہ سودى معاملات كا ايك حيلہ ہے" انتہى كمى و بيشى كے ساتھ.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 19 / 245 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اس لين دين كو حرام كہتے ہيں.

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 5 / 392 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اس ميں توسط اختيار كرتے ہوئے كچھ معين شروط كے ساتھ اسے جائز قرار ديا ہے.

شيخ رحمہ اللہ " رسالۃ المداينۃ " ميں كہتے ہيں:

" پانچويں قسم: ـ يعنى قرض كى اقسام ميں سے ـ :

وہ يہ كہ اسے رقم اور مبلغ كى ضرورت ہے اور اسے قرض دينے والا كوئى شخص نہيں تو وہ كوئى چيز ادھار خريد كر پھر اسے كسى اور شخص كو فروخت كر دے جس سے خريدا ہے اسے فروخت نہ كرے، تو يہ مسئلہ تورق كہلاتا ہے.

اس كے جواز ميں علماء كرام نے اختلاف كيا ہے، بعض تو اسے جائز قرار ديتے ہيں، كيونكہ آدمى كوئى چيز خريدتا ہے تو اس كا مقصد يا تو بعينہ وہ چيز اور سامان ہوتا ہے، يا پھر اس كا كوئى عوض، اور يہ دونوں مقصد صحيح ہيں.

اور بعض علماء كرام كہتے ہيں يہ جائز نہيں؛ كيونكہ اس سے پيسے حاصل كرنا مقصد ہے، اور يہ سامان تو ان كے مابين بطور حيلہ داخل ہوا ہے اور ان وسائل كے ساتھ جن سے خرابى كا حصول دور نہ ہوتا ہو كسى حرام چيز كو حلال كرنا كوئى فائدہ نہيں ديگا.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اعمال كا دارومدار تو نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كر ركھى ہو "

مسئلہ تورق كو حرام كہنے والا قول شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اختيار كيا ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھى ايك روايت يہى ہے.

بلكہ امام احمد رحمہ اللہ نے تو ابو داود كى روايت ميں اسے العينہ يعنى سود ميں شامل كيا ہے، جيسا كہ ابن قيم رحمہ اللہ نے تھذيب السنن ميں نقل كيا ہے.

ديكھيں: تھذيب السنن لابن قيم ( 5 / 80 ).

ليكن آج كے دور ميں لوگوں كى ضرورت، اور قرض دينے والوں كى كمى كے پيش نظر كچھ شروط كے ساتھ اسے جائز كہنا ضرورى ہے:

1 - اسے پيسوں كى ضرورت ہو، اور اگر وہ رقم كا محتاج نہيں تو پھر جائز نہيں ہوگا، مثلا كوئى شخص كسى دوسرے كو قرض دينے كے ليے يہ طريقہ اختيار كرے.

2 - كسى اور مباح طريقہ سے اس كے ليے مال حاصل كرنا ممكن نہ ہو مثلا قرض كے ذريعہ، اور اگر كسى اور طريقہ سے اس كے ليے مال حاصل كرنا ممكن ہو تو اس كے ليے يہ طريقہ ( يعنى تورق ) اختيار كرنا جائز نہيں كيونكہ اسے اس كى ضرورت نہيں ہے.

3 - معاہدہ كسى ايسى چيز پر مشتمل نہ ہو جو سود كے مشابہ ہو، مثلا وہ يہ كہے: ميں نے تجھے يہ دس گيارہ ميں فروخت كيے، يا اس طرح كى كلام، اگر وہ اس پر مشتمل ہو يا تو يہ مكروہ ہو گا يا پھر حرام، امام احمد سے منقول ہے كہ انہوں اس طرح كے مسئلہ ميں فرمايا: گويا كہ يہ دراہم كے بدلے دراہم ہيں، يہ صحيح نہيں، يہ امام احمد كى كلام ہے.

تو اس بنا پر صحيح طريقہ يہ ہے كہ دينے والا سامان كى قيمت اور اس كے نفع كى مقدار معلوم كرے اور پھر لينے والے كو كہے ميں نے تجھے ايك سال تك اتنے ميں ديا.

4 - ادھار لينے والا اسے اپنے قبضہ ميں كرنے اور اپنے پاس لے جانے سے پہلے اس چيز كو فروخت نہ كرے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تاجروں كو سامان اپنى دوكانوں اور اپنى جگہوں پر لے جانے سے قبل فروخت كرنے سے منع فرمايا ہے.

جب يہ چار شرطيں پورى ہو جائيں تو پھر مسئلہ تورق كے جائز ہونے كا قول كہا جا سكتا ہے، تا كہ لوگوں كو تنگى نہ ہو.

ليكن يہ معلوم ہونا چاہيے كہ ادھار لينے والے ادھار دينے والے كو يہ سامان اور چيز فروخت كرنے والے كو كسى بھى حالت ميں خريدى ہوئى قيمت سے كم ميں فروخت نہ كرے؛ كيونكہ يہى العينۃ ( يعنى سود كى ايك قسم ) ہے " انتہى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب