اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

( ويزا ، سامبا ) ان كارڈوں كے ساتھ لين دين كرنا حرام ہے اگرچہ محدود وقت كے اندر ہى ادائيگى كردى جائے

تاریخ اشاعت : 22-11-2012

مشاہدات : 7301

سوال

ميں نے سنا ہے كہ ( ويزا اور سامبا ) كارڈوں كے ساتھ لين دين كرنا حرام ہے، ليكن اگر مجھے يقين ہو كہ ميں بنك كو مقررہ مدت كے اندر رقم كى ادائيگى كردونگا، تو بنك اس بنا پر مجھ سے كوئى فائدہ حاصل نہيں كرسكے گا، تو كيا اس كا حكم بھى حرام ہى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

( ويزا اور سامبا ) كارڈ كے ساتھ لين دين كرنے كے حرمت كے متعلق سوال كرنے والے آپ نے جو كچھ سنا ہے وہ بالكل صحيح ہے، اور اس كا بيان سوال نمبر ( 13735 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے، اس كا ضرور مطالعہ كريں.

اس كے ساتھ لين دين كرنا حرام ہے اگرچہ كھاتے دار كو يہ يقين ہو كہ وہ بنك كو مقررہ مدت كے اندر بنك كو رقم ادا كردے گا.

اس سوال كے جواب ميں يہ بيان كيا جا چكا ہے كہ يہ حرام ہے كيونكہ بنك كھاتے دار كو فائدہ كے بدلے ميں رقم فراہم كرتا ہے، اور يہ فائدہ ويزا ميں سالانہ شراكت كى فيس ہے، اور اس كے ساتھ دوسرے فوائد بھى بنك كو حاصل ہوتے ہيں، جو كہ كھاتہ دار كى ادائيگى ميں تاخير كى صورت ميں حاصل ہوتے ہيں.

لھذا ويزا كارڈ كى قيمت ايسے سود كى شكل ميں ہے جو كھاتے دار بنك كو ادا كرتا ہے، اور يہ سود كھاتے دار نے ادا كرنا ہى ہے چاہے ادائيگى وقت پر كردے يا نہ كرے.

اور يہ بھى ہے كہ: كھاتے دار بنك كے ساتھ لين دين كرنے لگا ہے اور جب وہ ادائيگى ميں تاخير كرے گا تو اسے سود ادا كرنا ہوگا، اور يہ بھى حرام ہے، كيونكہ كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اللہ تعالى كے حرام كردہ فعل كا التزام كرے.

اور ہو سكتا ہے كہ كھاتے دار يہ گمان ركھتا ہو كہ وہ وقت مقررہ پر ادائيگى كردے گا، اور پھر كوئي ايسا مانع پيش آ جائے جس كى بنا پر وہ ادائيگى نہ كرسكے تو وہ بنك كو سود ادا كرے گا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى عنہ اس لين دين كے حكم ميں كہتے ہيں:

اس طريقہ اور صفات والا معاہدہ جائز نہيں، كيونكہ اس ميں سود ہے جو كہ ويزا كارڈ كى قيمت ہے، نيز اگر ادائيگى ميں تاخير ہو جائے تو اس ميں سود لازمى ہے. اھـ .

اور ايك دوسرے فتوى ميں ہے:

لين دين كا يہ معاملہ حرام ہے، يہ اس ليے كہ اس ميں اگر وقت مقررہ پر ادائيگى نہ كى جائے تو سود دينے كا التزام پايا جاتا ہے، اور يہ التزام باطل ہے، اگرچہ انسان يہ گمان ركھتا ہو يا اس كا ظن غالب يہ ہو كہ وہ وقت مقررہ سے قبل ادائيگى كردے گا، كيونكہ ہو سكتا ہے امور مختلف ہو جائيں اور وہ ادائيگى كى استطاعت نہ ركھے، اور يہ مستقبل كا معاملہ ہے اور انسان مستقبل كے متعلق كچھ نہيں جانتا كہ اس كو كيا پيش آنے والا ہے، لہذا اس طريقہ پر لين دين كرنا حرام ہے. واللہ تعالى اعلم. اھـ

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب