اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

تصاوير پر مشتمل سونے كے سكوں كى خريدارى

تاریخ اشاعت : 21-09-2019

مشاہدات : 8055

سوال

كيا مسلمانوں كے ليے مالى اور نقدى قيمت كے مقابلے ميں تصاوير پر مشتمل سونے كے سكوں كى خريدارى اور اس كى ترويج جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو سوال سونے كے ان سكوں كى خريدارى اور ترويج كے متعلق ہے جو ذى روح كى اشكال اور تصاوير پر مشتمل ہوں تو اس ميں تفصيل ہے:

1 - اگر تو يہ سكے بطور زينت پہنے يا لٹكائے جاتے ہيں تو اس كى خريدو فروخت جائز نہيں، اور نہ ہى اس كى ترويج جائز ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے كہ:

( جس چيز پر بھى ذى روح كى تصاوير و اشكال ہوں چاہے وہ سونے يا چاندى كے سكے ہوں يا كاغذ كے نوٹ، يا پھر كپڑا ہو يا كوئى آلہ وغيرہ، اگر تو لوگوں كے مابين ان اشياء كو ديواروں وغيرہ پر لٹكانا رائج ہو جس ميں ان اشياء كى توہين نہ ہوتى ہو تو تصوير كشى كى حرمت اور ذى روح كى تصاوير كے استعمال والے دلائل كے شمول كى بنا پر ان اشياء كا لين دين كرنا حرام ہے ).

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 74 ).

2 - اور اگر يہ سكے لوگوں ميں بطور نقدى اور رقم متداول ہوں تو انہيں اپنے پاس ركھنا اور ان كے ساتھ لين دين كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور يہ ان ديناروں كے قائم مقام ہونگے جو مسلمانوں كے ہاں عبدالملك بن مراوان رحمہ اللہ تعالى كا خاص دينار بنانے سے قبل پہلے ادوار ميں استعمال ہوتے رہے ہيں، اور يہ جواز حاجت اور ضرورت كى جگہ ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( آج مسلمان پيسے روپے جن پر بادشاہوں اور صدر اور وزير اعظموں كى تصاوير ہوتى ہيں كو اپنے پاس ركھنے ميں مبتلا ہيں يہ معاملہ نيا نہيں بلكہ بہت قديم ہے، اور اس مسئلہ ميں اہل علم نے كلام بھى كى ہے، يہاں لوگ انگريزى كرنسى اپنے پاس ركھا كرتے اور اسے استعمال كرتے تھے جس پر گھوڑا اور گھڑ سوار كى تصوير ہوتى تھى، اور لوگ فرانسى ريال بھى اپنے ساتھ ركھتے تھے جس ميں سر اور گردن اور پرندے كى تصوير ہوا كرتى تھى، اس مسئلہ ميں ہمارے خيال كے مطابق انہيں اپنے پاس ركھنے اور استعمال كرنے والے پر كوئى گناہ نہيں كيونكہ اس سے ضرورت كى بنا پر ايسا كيا ہے، كيونكہ انسان كے ليے اپنى جيب ميں ان نوٹوں كو ركھے بغير كوئى چارہ نہيں، اور لوگوں كو اس سے روكنے ميں بہت مشكل اور تنگى ہے، اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى تو تمہارے ساتھ آسانى اور سہولت چاہتا ہے، اور تمہارے ساتھ تنگى نہيں چاہتا

اور ايك دوسرے مقام پر فرمايا:

اللہ تعالى نے دين ميں تمہارے ليے كوئى تنگى اورحرج نہيں ركھا

اور صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بلاشبہ دين آسان ہے، اور جو كوئى بھى دين ميں طاقت سے زيادہ مكلف كيا وہ اس پر مشقت بن جائے گا، لہذا توسط اور صحيح اعمال كرنے ميں قرب اختيار كرو، اور خوشخبري ديا كرو" صحيح بخارى

اور جب معاذ بن جبل اور ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہمار كو يمن روانہ كيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دونوں سے فرمايا:

" آسانى پيدا كرنا اور مشكل ميں نہ ڈالنا، اور خوشخبرياں دينا اور نفرت نہ پھيلانا"

اور جب لوگوں نے مسجد ميں پيشاب كرنےوالے اعرابى شخص كو ڈانٹا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں سے فرمايا:

" اسے بلاؤ تم تو آسانى پيدا كرنے كے ليے بھيجے گئے ہو نہ كہ مشكلات ميں ڈالنے كے ليے" ان دونوں كو بھى بخارى نے روايت كيا ہے.

لہذا جب كوئى شخص تصاوير والے نوٹ يا شناختى كارڈ يا لائسنس وغيرہ جس كى اسے ضرورت ہے اپنے پاس ركھے يا اسے اس چيز كى ضرورت كا خدشہ ہو اور اپنے پاس ركھے تو ان شاء اللہ ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں اور نہ ہى گناہ ہو گا، جبكہ اللہ تعالى كو يہ علم ہے كہ وہ شخص ان تصاوير كو ناپسند كرتا ہے اور اگر اسے ان اشياء كى ضرورت نہ ہوتى تو وہ اپنے پاس جيب ميں نہ ركھتا ) انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 2 / 280 ).

اور مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

كچھ ايسے معاملات ہيں جو مجھے پريشان كيے ركھتے ہيں، ان ميں سے ايك تو نوٹوں پر تصوير كا مسئلہ ہے، جس ميں ہميں مبتلا كر ديا گيا ہے، اور ہم انہيں لے كر مساجد ميں بھى داخل ہوتے ہيں، تو كيا انہيں مساجد ميں لے كر داخل ہونا وہاں سے فرشتوں كے جانے كا سبب بنتا ہے، لہذا اس كا مساجد ميں لے جانا حرام ہوا؟

اور كيا يہ توہين كى جانے والى اشياء ميں شمار ہوتا ہے؟ كيونكہ جن تصاوير كى توہين و اہانت كى جائے وہ تصاوير گھروں ميں فرشتوں كے دخول كى ممانعت نہيں بنتى.

مستقل فتوى كميٹى كا جواب تھا:

نوٹوں والى تصاوير ميں آپ سبب نہيں بلكہ آپ تو اسے اپنے پاس ركھنے اور ملكيت بنانے اور بطور حفاظت اسے اپنے گھر ميں ركھنے اور خريدو فروخت اور ہبہ و صدقہ اور قرض كى ادائيگى كر نے اور اس كے علاوہ بھى مشروع مصلحتيں پورى كرنے كا فائدہ حاصل كرنے كے ليے اپنے ساتھ جيب ميں ركھنے پر مجبور اور مضطر ہيں، لہذا اس ميں آپ پر كوئى حرج نہيں، اور نہ ہى يہ اہانت والى اشياء ميں داخل ہے، بلكہ يہ حفاظت كے تابع ہونے كى بنا محفوظ ركھنے والى اشياء ميں سے ہے كيونكہ اس ميں نقدى ہے، بلكہ ضرورت كى بنا پر يہ حرج ختم ہوا ہے. انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 485 ).

اور اگر پيسوں كے ساتھ سونے كے سكے خريدنا مقصد ہو تو جب ہاتھوں ہاتھ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" سونا سونے كے ساتھ، چاندى چاندى كے ساتھ، گندم گندم كے ساتھ، جو جو كے ساتھ، اور كھجوريں كھجوروں كے ساتھ، نمك نمك كے ساتھ مثل اور برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ ( نقد ) ہو، اور جب يہ اقسام مختلف ہو جائيں تو پھر نقد ميں جس طرح چاہو فروخت كرو"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1587 )

اور موجودہ نقدى اور نوٹ وغيرہ ايك جنس ہے جو قائم بالنفس ہے يعنى خود ايك جنس ہے، اس كے احكام بھى سونے اور چاندى والے ہيں، لہذا جب اس سے آپ سونا يا چاندى خريديں تو اسى وقت قبضہ ضرورى ہے.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب يہ اقسام مختلف ہو جائيں تو پھر ہاتھوں ہاتھ ( نقد ) جس طرح چاہو فروخت كرو"

واللہ اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب