جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ان كے والد نے حرام مال چھوڑا ہے

تاریخ اشاعت : 28-06-2006

مشاہدات : 6607

سوال

ايك مسلمان شخص نے اپنے مال كى ايك شراب فروخت كرنے والى كمپنى ميں سرمايہ كارى كى ( حصص كى خريدارى كى ) اور پھر ان حصص كو فروخت كر كے كچھ منافع حاصل كيا اور كچھ برس بعد فوت ہو گيا، اس كى اولاد كو علم ہوا كہ ان كا والد تجارت كرنے ميں غلطى پر تھا، اب انہيں كيا كرنا چاہيے؟
كيا ان كے والد نے ان حصص كو فروخت كر كے جو مال كمايا تھا اسے وہ صدقہ كرديں، يا پھر وہ رفاہ عامہ كے ليے دے ديں مثلا راستے، مساجد اور مدارس كى تعمير وغيرہ كے ليے؟
اور اگر يہ رقم استعمال ہو چكى ہو تو كيا اولاد اپنے خاص مال سے رفاہ عامہ كے ليے كچھ خرچ كر دے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اولاد كا اپنے والد كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى، اور والد كا ان پر يہ حق ہے كہ ان كے والد نے مذكورہ حصص سے جو منافع ليا تھا اسے رفاہ عامہ مثلا راستہ اور مدرسہ وغيرہ كى تعمير ميں صرف كرديں، ليكن يہ ضرورى ہے كہ اس مال سے اپنے يا دوسروں كے كھانے كے ليے غلہ نہ خريديں - دوسروں كے ليے ورع كى بناء پر- اور نہ ہى اس مال سے مسجد تعمير كى جائے، اور اس مال كو دينے ميں ان كى نيت اپنے والد كو گناہ سے نكالنے كى ہو نہ كہ اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنے كى، كيونكہ اللہ تعالى پاك ہے اور پاكيزہ چيز كے علاوہ كچھ قبول نہيں كرتا.

چاہے بعينہ وہ مال نكاليں يا اس كے بدلے ميں اپنے خاص مال سے نكاليں اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ حرمت كا تعلق تو كمائى سے ہے، نہ كہ بعينہ اسى رقم كے ساتھ، لھذا اگر وہ حرام كمائى جتنا مال نكال ديں تو كافى ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى مباح اور ممنوع كے اختلاط ميں قاعدہ بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

( اس كى دو قسميں ہيں: پہلى قسم يہ ہے كہ: وہ ممنوع بعينہ حرام ہو، مثلا خون اور پيشاب....

اور دوسرى قسم يہ ہے كہ: وہ كمائى كے اعتبار سے حرام ہو، نہ كہ بعينہ حرام ہو، مثلا غصب كردہ درھم، تو يہ دوسرى قسم حلال سے اجتناب واجب نہيں كرتى اور نہ ہى بالكل اسے حرام كرتى ہے، بلكہ جب اس كے مال ميں ايك درہم يا اس سے زيادہ حرام مل جائے تو اس سے حرام كى مقدار نكال دى جائے گى، اور باقى مال بغير كسى كراہت كے حلال ہو گا، چاہے نكالا گيا وہى حرام ہو يا اس طرح كا ، كيونكہ حرمت كا تعلق درہم كى ذات سے نہيں بلكہ اس كا تعلق تو كمائى كے طريقہ سے ہے... ) اھـ

ديكھيں: بدائع الفوائد ( 3 / 257 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد