جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

حرام مال والے شخص سے قرض لينے كا حكم

تاریخ اشاعت : 26-01-2011

مشاہدات : 10400

سوال

كيا ميرے ليے اسے شخص سے قرض لينا جائز ہے جو حرام تجارت كرنے ميں معروف ہے، اور حرام كھانے كا عادى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

" ميرے بھائى آپ كو ايسے شخص سے قرض نہيں لينا چاہيے، اور نہ ہى اس كے ساتھ لين دين كرنا چاہيے جب تك وہ حرام لين دين كرتا ہے، اور سودى كاروبار كرنے ميں معروف ہے، يا دوسرے حرام كام، آپ اس سے لين دين نہ كريں، بلكہ آپ اس سے اجتناب كرتے ہوئے اس سے دور رہيں.

ليكن اگر وہ شخص حرام اور غير حرام دونوں قسم كا لين دين كرتا ہو، يعنى اس كا لين دين حلال اور حرام گندے اور اچھے دونوں سے مختلط ہو تو پھر كوئى حرج نہيں، ليكن پھر بھى اسے ترك كرنا افضل اور بہتر ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس ميں تجھے شك ہو اسے چھوڑ كر اسے اختيار كرو جس ميں شك نہ ہو "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2518 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اس ليے بھى كہ ايك دوسرى حديث ميں رسو كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اسطرح ہے:

" جو شخص شبھات سے بچ گيا اس نے اپنے دين اور اپنى عزت كى حفاظت كر لى "

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" گناہ وہ ہے جو تيرے دل ميں كھٹكے، اور تو اس پر راضى نہ ہو كہ لوگوں كو اس كا علم ہو "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2389 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے مؤمن شخص شبھات سے دور رہتا ہے، اور جب آپ كو يہ علم ہے كہ اس شخص كا سارا لين دين حرام پر مبنى ہے، اور وہ حرام اشياء كى تجارت كرتا ہے تو اس طرح كے شخص كے ساتھ لين دين نہيں كرنا چاہيے، اور نہ ہى ايسے شخص سے قرض ليا جائے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 19 / 286 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب