سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

سر اور راگ كے ساتھ اذان كہنے كا حكم

تاریخ اشاعت : 20-11-2006

مشاہدات : 7249

سوال

كيا راگ لگا كر اذان كہنى جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اذان ميں اس طرح راگ لگانا مكروہ ہے كہ حروف كو اتنا لمبا كرديا جائے وہ اپنى اصل سے نكل جائے، اور اس ميں طرب پيدا ہو جائے، يہ اس صورت ميں ہے جب اس كا معنى نہ بدلے، ليكن ايسا كرنے سے اگر معنى ميں تبديلى ہو جائے تو حرام ہو گا، اور يہ اذان صحيح نہ ہو گى.

ابن ابى شيبہ نے روايت كيا ہے كہ:

ايك مؤذن راگ اور سر لگا كر اذان كہى تو عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ كہنے لگے:

سيدھى سادھى اور آرام سے اذان كہو، وگرنہ ہم سے دور ہو جاؤ "

مصنف ابن ابى شيبہ ( 259 ).

سمحا كا معنى يہ ہے كہ سر اور راگ مت لگاؤ، اسمع و سمح و سامع اس وقت كہا جاتا ہے جب كسى معاملہ ميں آسانى كرے.

ديكھيں: المغرب فى لغۃ الفقہ لابى المكارم المطرزى الحنفى ( 234 ).

اور " المدونۃ " ميں ہے:

" مالك رحمہ اللہ تعالى اذان ميں سر اور راگ لگانا بہت شديد مكروہ سمجھتے تھے " اھـ

ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 159 ).

اور كتاب الام ميں امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ميں اذان ترتيل اور تبيين پسند كرتا ہوں، كلام ميں نہ تو تمديد ( يعنى لمبا كرنا ) ہو اور نہ ہى جلد بازى و عجلت " اھـ

ديكھيں: الام ( 1 / 107 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:

فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ اذان كھينچ كر لمبى كرنى، اور لہك لہك اور راگ و سر لگا كر اذان دينى، اور شروع يا آخر ميں حركت يا حرف يا مد وغيرہ كو لمبا اور زيادہ كر كے طرب كے ساتھ اذان كہنى مكروہ اور خشوع اور وقار كے منافى ہے.

اور اگر راگ و سر اتنا فحش اور غلط ہو كہ اس سے معنى ميں خلل پيدا ہوتا ہو تو بغير كسى اختلاف كے ايسا كرنا حرام ہے، كيونكہ روايت كيا جاتا ہے كہ ايك شخص نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو كہنے لگا: ميں آپ سے اللہ تعالى كے ليے محبت كرتا ہوں، تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے:

ميں اللہ تعالى كے ليے تجھ سے ناراض ہوں اور تجھ سے بغض ركھتا ہوں، تم اذان ميں راگ اور سر لگاتے ہو.

حماد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: يعنى طرب كے ساتھ لہك لہك كر اذان ديتا تھا. اھـ

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 6 / 12 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى لحن كے ساتھ اذان دينے والے كے متعلق كہتے ہيں:

( يعنى جو طرب كے ساتھ اذان كہے گويا كہ گانے كے الفاظ كھينچ رہا ہے يہ اذان تو ہو جائيگى ليكن مكروہ ہے )

اور ان كا كہنا ہے: ( ليكن لحن ـ جو كہ عربى قواعد كے مخالف ہو ـ كى دو قسميں ہيں:

ايك قسم تو ايسى ہے جس كے ساتھ اذان صحيح نہيں، وہ قسم جس كے ساتھ معنى بدل جائے )

اور ايك قسم جس كے ساتھ اذان تو صحيح ہے ليكن مكروہ ہے، يہ وہ قسم ہے جس كے ساتھ معنى تبديل نہيں ہوتا، چنانچہ اگر مؤذن " اللہ اكبار " كہے تو يہ صحيح نہيں؛ كيونكہ اس سے معنى بدل جاتا ہے، كيونكہ اكبار كبر كى جمع ہے، جس طرح اسباب سبب كى جمع، اور يہ طبل ہے ) انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 62 ).

اور شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( اذان ميں مطلوبہ مد سے زائد نہيں كھنچنا چاہيے، اور اگر اس سے معنى بدل جائے تو اذان باطل ہو جائيگى، اور حروف مد كو لازم مد سے زيادہ نہيں كھينچنا چاہيے، حتى كہ اگر حركات كو كھينچا جائے اور اس سے معنى بدل جائے تو صحيح نہيں، وگرنہ مكروہ ہے ). انتہى

ماخوذ از: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 2 / 125 ).

حاصل يہ ہوا كہ: اذان ميں سر اور راگ لگانا مكروہ ہے، اور بعض اوقات اذان كو باطل بھى كر ديتا ہے، يعنى اگر معنى تبديل ہو جائے تو باطل ہو گى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب