الحمد للہ.
ہمارے علم کے مطابق سنت نبوی میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے کہ جس میں سلام پھیرتے وقت نمازی کی نظروں کے بارے میں کچھ بیان ہوا ہو، اور صحیح مسلم میں اتنا ہے کہ وہ اپنے ساتھ والے نمازی کی طرف مُڑے [التفات کرے]۔
چنانچہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیساتھ نماز پڑھی ، تو جب ہم نے سلام پھیرا تو ہم اپنے ہاتھوں سے اشارہ کیا "السلام علیکم"، "السلام علیکم" تو ہماری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا، اور فرمایا: (تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اپنے ہاتھوں کیساتھ ایسے اشارہ کرتے ہو کہ گویا شریر گھوڑوں کی دُمیں ہوں؟ تم میں سے کوئی بھی جب سلام پھیرے تو اپنے ساتھی کی طرف مُڑے [التفات کرے] اور اپنے ہاتھ سے اشارہ مت کرے) مسلم: (431)
حدیث کے عربی الفاظ میں مذکور: " خيل شمس " کا معنی ہے: بدکنے والا گھوڑا جو ایک جگہ نہ ٹِکے۔
اور کچھ احادیث میں دائیں بائیں [سلام پھیرتے ہوئے] مکمل طور پر مُڑنے کا بھی ذکر آیا ہے۔
چنانچہ عامر بن سعد اپنے والد سعد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں بائیں سلام پھیرتے ہوئے دیکھا کرتا تھا، حتی کہ آپکے رخسار کی سفیدی بھی مجھے دیکھنے کو ملتی تھی۔ مسلم: (852)
اسی طرح نسائی : (1329) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دائیں جانب سلام پھیرتے تو : " السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ " کہتے حتی کہ آپ کے دائیں رخسار کی سفیدی نظر آتی، اور بائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے کہتے: " السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ " حتی کہ آپ کے بائیں رخسار کی سفیدی نظر آتی۔ اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔
اور دائیں بائیں رخسار کی سفیدی اسی وقت دیکھی جاسکتی ہے جب سلام پھیرتے ہوئے مکمل طور پر مُڑا جائے، جیسے کہ کاسانی رحمہ اللہ نے "بدائع الصنائع" (1/214) میں کہا ہے۔
ان احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
نمازی سلام پھیرتے ہوئے دائیں اور بائیں اچھی طرح مڑے گا، اسی طرح جو نماز میں اسکے دائیں اور بائیں جانب موجود ہے اسکی طرف بھی مُڑ سکتا ہے، ایسے ہی نمازی کیلئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ اپنے ساتھی کی طرف دیکھے یا کندھے کی طرف دیکھے، اس بارے میں وسعت ہے۔
واللہ اعلم .