الحمد للہ.
گھر میں مسجد کے امام کے پیچھے اقتدا کرتے ہوئے نماز پڑھنا صحیح نہیں ، مقتدی کی امام کے ساتھ نماز اس وقت صحیح ہوگي جب وہ مسجد میں ہو اورصفیں بھی ایک دوسرے سے ملیں ہوئي ہوں یا پھر مسجد سے باہر ہو اورصفیں مسجد سےباہر تک ایک دوسری سے ملی ہوئي ہوں تو پھرامام کے پیچھے نماز صحیح ہوگي ۔
مثلا اگر مسجد اندر سے بھر جائے اوربعض لوگ اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کے باہر نماز ادا کریں تو صحیح ہوگا لیکن اس کے علاوہ کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ۔
لیکن اگر مسجد میں ابھی جگہ خالی ہو جہاں نماز پڑھی جاسکتی ہے تواس صورت میں مسجد سے باہر نماز ادا کرنا صحیح نہيں ۔
اللجنۃ الدائمۃ سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :
جوشخص اپنے گھرمیں سپیکروں کے ذریعہ مسجد کے امام کی اقتداء میں نماز ادا کرے اورامام اورمقتدی کے مابین کسی بھی وسطہ سے اتصال نہ ہوتواس نماز کا حکم کیا ہوگا ، جیسا کہ مکہ اورمدینہ میں موسم رمضان اورحج میں ہوتا ہے ؟
مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) کا جواب تھا :
اس طریقہ سے ادا کی گئي نماز صحیح نہيں ، شوافع اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی کا مسلک یہی ہے ، لیکن اگر صفیں اس کے گھر کے ساتھ متصل یعنی ملی ہوئي ہوں اورامام کو دیکھ کراور اس کی آواز سن کراقتدا کرنا ممکن ہو تو پھرصحیح ہے جس طرح اس کے گھر تک ملی ہوئي صفوں کی نماز صحیح ہے اس کی بھی صحیح ہوگي ۔
لیکن اگرمذکورہ شرط نہيں تو پھر نماز صحیح نہيں ہوگي ، کیونکہ مسلمان پر مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنا واجب ہے ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جواذان سننے کے بعد بھی نماز پڑھنے نہ آئے توبغیر کسی عذر کے اس کی نماز نہيں ہوتی ) سنن ابن اورمستدرک حاکم ، حافظ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ اس کی سند مسلم کی شرط پر ہے ۔
اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینے صحابی کو جنہوں نے اپنے گھر میں ہی نماز پڑھنے کے بارہ میں سوال کیا تھا فرمایا :
( کیا آپ اذان سنتے ہیں ؟ تووہ صحابی کہنے لگے جی ہاں میں اذان سنتا ہوں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو پھر اسے قبول کر ) صحیح مسلم ، اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔
دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 8 / 32 ) ۔
واللہ اعلم .