جمعرات 16 شوال 1445 - 25 اپریل 2024
اردو

مسجد ميں خارجى لاؤڈ سپيكر استعمال نہيں كرنے چاہيں

تاریخ اشاعت : 20-09-2008

مشاہدات : 6446

سوال

كيا افضل يہ ہے كہ ہم تراويح اور تھجد مسجد كے اندرونى لاؤڈ سپيكر كے ذريعہ ادا كريں، يا كہ خارجى لاؤڈ سپيكر استعمال كريں تا كہ لوگ سڑكوں اور قريبى گھروں ميں بھى سن سكيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز ميں خارجى لاؤڈ سپيكر استعمال نہ كيے جائيں، چاہے نماز تراويح ہو يا تھجد يا كوئى اور نماز مثلا نماز فجر يا مغرب يا عشاء، اس ليے كہ اس پر بہت سے مفاسد مرتب ہوتے ہيں، مثلا مسجد كے پڑوسيوں كو اذيت وغيرہ.

فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ان آخري ايام ميں مساجد كے آئمہ خارجى لاؤڈ سپيكر كثرت سے استعمال كرنا شروع كر ديے ہيں جو كہ غالبا ميناروں پر لگے ہوتے ہيں، ايسا كرنے ميں جھرى نمازوں ميں لاؤڈ سپيكر پر قرآت كرنے سے ايك دوسرى مساجد پر تشويش ہوتى ہے، چنانچہ جھرى نمازوں ميں ميناروں پر لگے ہوئے لاؤڈ سپيكروں كے استعمال كا حكم كيا ہے، حالانكہ اس سے دوسرى مساجد پر تشويش ہوتى ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" ميناروں پر لگے ہوئے لاؤڈ سپيكروں كا جھرى نمازوں ميں استعمال ممنوع ہے، كيونكہ اس سے قريبى گھروں اور مساجد والوں كے ليے تشويش ہوتى ہے.

امام مالك رحمہ اللہ تعالى نے موطا شرح الزرقانى ( 178 ) ( باب العمل فى القراءۃ ) ميں عن البياضى فروۃ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كچھ لوگوں پر نكلے جو نماز ادا كر رہے تھے اور قرآت ميں ان كى آواز بلند تھى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" بلا شبہ نمازى اپنے رب سے سرگوشياں كرتا ہے، اسے ديكھنا چاہيے كہ وہ كيا سرگوشياں كرتا ہے، اور تم ميں سے كوئى بھى كسى دوسرے پر قرآن مجيد ميں آواز بلند نہ كرے "

اور ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے ( رات كى نماز ميں بلند آواز سے قرآت ) كے عنوان كے تحت ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسجد ميں اعتكاف كيا تو لوگوں كو بلند آواز سے قرآت كرتے ہوئے سنا چنانچہ آپ نے پردہ اٹھايا اور فرمانے لگے:

" خبردار تم ميں سے ہر كوئى اپنے رب سے سرگوشياں كر رہا ہے، لہذا تم ايك دوسرے كو اذيت سے دوچار مت كرو، اور قرآت ميں ايك دوسرے سے آواز بلند مت كرو "

يا فرمايا: " نماز ميں "

ابن عبد البر كہتے ہيں: بياضى اور ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث صحيح اور ثابت ہے.

ديكھيں: سنن ابو داود حديث نمبر ( 1332 ).

چنانچہ ان دونوں حديثوں ميں نماز ميں بلند آواز سے قرآت كرنے كى نہى ہے اس طرح كہ دوسروں كو تشويش ہو، اور اس ميں اذيت ہے جس سے منع كيا گيا ہے.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

كسى ايك كو بھى اس طرح نماز ميں بلند آواز سے قرآت كى اجازت نہيں كہ وہ كسى دوسرے كے ليےاذيت كا باعث بنے، مثلا نمازيوں وغيرہ كے ليے.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 23 / 61 ).

اور فتاوى الكبرى ميں ان كا ايك جواب كچھ اس طرح ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس سے مسجد والوں كو تشويش ہو يا پھر ايسا فعل كيا جو تشويش كا باعث بنے وہ ممنوع ہے " اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 1 / 350 ).

اور آواز بلند كرنے والا جو وجہ جواز كا دعوى كرتا ہے اس كا جواب دو وجہوں سے ہے:

پہلى وجہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو قرآن مجيد كى تلاوت ميں آواز بلند كرنے سے منع فرمايا، اور بيان كيا كہ اس ميں اذيت ہے، اور يہ تو معلوم ہے كہ كسى بھى مؤمن شخص كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فيصلہ كے بعد حكم عدولى كا كوئى اختيار نہيں رہتا.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور كسى بھى مومن مرد اور عورت اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے فيصلہ كے بعد اپنے معاملہ ميں كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمانى كرے تو وہ واضح طور پر گمراہ ہوا.

اور يہ بھى معلوم ہے كہ مومن شخص خود بھى راضى نہيں ہوتا كہ اس كى جانب سے بھائيوں كو تكليف پہنچے.

دوسرى وجہ:

جو وجہ جواز وہ پيش كرتا ہے ـ اگر ان كا وجود صحيح ہو ـ تو يہ آواز بلند كرنے والى ممنوعات كے بھى مخالف اور معارض ہے، وہ درج ذيل ہيں:

1 - ايسا كرنے سے ممنوعہ كام وقوع ہوتا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نمازيوں كو ايك دوسرے سے آواز بلند كرنے سے منع فرمايا ہے.

2 - نمازيوں وغيرہ دوسرے سامعين جو علمى درس ميں شامل ہوں يا پھر حفظ كرنے والوں كے باعث تشويش اور اذيت ہے.

3 - قريبى مساجد كے نمازيوں كو اپنے امام كى قرآت سننے ميں خلل اندازى ہوتى ہے، حالانكہ انہيں اپنے امام كى قرآت كى سماعت كا حكم ہے.

4 - قريبى مساجد ميں بعض نمازى ركوع اور سجود ميں زيادہ بلند آواز والے امام كى اقتدا كرنے لگتے ہيں، خاص كر جب مسجد بڑى اور زيادہ نمازيوں والى ہو تو باہر سے آنے والى نماز ان كے امام كے ساتھ خلط ملط ہو جاتى ہے، ہم تك اس كى بہت سى شكايت پہنچى ہيں.

5 - ايسا كرنا بعض لوگوں كا مسجد كى طرف جانے ميں سستى كا باعث بنے گا؛ كيونكہ وہ امام كى نماز كى ايك ايك ركعت اور ہر جزء كى آواز سنے گا اور يہ سمجھتے ہوئے سستى كرتے گا كہ ابھى تو امام نماز كى ابتدا ميں ہے، تو اس طرح وقت جاتا رہے گا حتى كہ نماز كا اكثر حصہ يا سارى نماز ہى فوت ہو جائے گى.

6 - جب مقتدى سنيں گے كہ امام آخرى ركعت ميں ہے تو وہ مسجد ميں جانے ميں جلد بازى سے كام ليں گے، جيسا كہ اس كا مشاہدہ بھى ہوا ہے، تو اس طرح وہ بلند آواز سن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے منع كام جلد بازى كے مرتكب ہونگے.

7 - ہو سكتا ہے وہ گھروں ميں يہ قرآت اس حالت ميں سنيں كہ وہ لھو و لعب اور لغو كاموں ميں مشغول ہوں، گويا كہ وہ قارى كو چيلنج كر رہے ہيں يہ اس كے برعكس ہے جو آواز بلند كرنے والے نے ذكر كيا ہے كہ گھروں ميں بہت سى عورتيں قرآت سن كر مستفيد ہوتى ہيں، حالانكہ يہ فائدہ تو قرآن كى كيسٹيں سن كر حاصل ہو سكتا ہے.

اور آواز بلند كرنے والے كا يہ كہنا كہ ہو سكتا ہے يہ بعض لوگوں پر اثر انداز ہو اور وہ مسجد ميں آكر نماز ادا كرنے لگيں، اور خاص كر جب قارى كى آواز اچھى اور خوبصورت ہو، يہ بات حق اور سچ ہو سكتى ہے، ليكن يہ انفرادى فائدہ ہے، جو مندرجہ بالا ممنوعات پر مشتمل ہے.

اور عام متفق عليہ قاعدہ يہ ہے كہ:

كہ جب مصالح اور مفاسد آپس ميں معارض ہوں تو ان ميں سے بڑے اور اكثر كا خيال ركھا جائے گا، تو اس كا جو تقاضا ہو وہى حكم ہو گا، اور اگر برابر ہوں تو پھر مصلحت كے حصول سے مفاسد كو دور كرنا زيادہ اولى ہے.

مسلمان بھائيوں كو ميرى نصيحت ہے كہ وہ سلامتى كى راہ پر چليں، اور اپنے ان مسلمان بھائيوں پر رحم كريں جن كى عبادات ميں اس بلند آواز سے خلل اور تشويش پيدا ہوتى ہے، حتى كہ انہيں پتہ ہى نہيں چلتا كہ انہوں نے كتنى نماز پڑھى ہے، اور كيا كہا نماز ميں قرآن مجيد كہاں سے پڑھا جا رہا ہے، اور كيا دعا كى جا رہى ہے.

ميرے علم ميں ہے كہ ايك شخص امام تھا اور وہ تشھد كى حالت ميں تھا اس كے قريب مسجد تھى جہاں سے امام كى قرآت كى آواز سنى جارہى تھى تو وہ شخص بار بار تشھد پڑھنے لگا كيونكہ وہ اسے صحيح طريقہ سے پڑھنے سے عاجز تھا، تو اس طرح خود بھى اور اپنے پيچھے نماز ادا كرنے والوں كے ليے طوالت كا باعث بن گيا.

پھر جب وہ اس راہ پر چليں اور ميناروں پر لگے ہوئے لاؤڈ سپيكروں ميں آواز بلند كرنا ترك كرديں تو ان كے مسلمان بھائيوں پر رحم كے ساتھ ساتھ انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان پر عمل بھى حاصل ہو جائيگا:

فرمان نبوى ہے:

" تم ميں سے بعض بعض پر قرآن ميں آواز بلند نہ كرے "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" چنانچہ وہ ايك دوسرے كو اذيت سے دوچار نہ كريں، اور قرآت ميں ايك دوسرے سے آواز بلند نہ كريں "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان پرعمل كرنے سے دل ميں جو سرور لذت ايمانى اور شرح صدر حاصل ہوتا ہے وہ كسى پر مخفى نہيں، اور اس سے نفس كو بھى خوشى حاصل ہوتى ہے. اھـ

اور انكا يہ بھى كہنا ہے:

" اور اس سے مسجد نبوى اور مسجد حرام كو استثناء كرنے ميں كوئى مانع نہيں، اور اسى طرح جن مساجد ميں نماز جمعہ ہوتا ہے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے كچھ نمازى مسجد كے باہر بھى ہوں جو امام كى آواز سننے كے محتاج ہوں، ليكن ايك شرط ہے كہ يہ مسجديں اتنى قريب نہ ہوں كہ نماز جمعہ ميں ايك دوسرے كے ليے تشويش كا باعث بنيں.

اور اگر ايسا ہو تو پھر لاؤڈ سپيكر مسجد كى ديوار پر ركھ ليے جائيں جن سے خطبہ اور نماز كى آواز سنى جائے، اور ميناروں والے سپيكروں كو بند كر ديا جائے تا كہ كسى دوسرے كو اذيت ديے بغير ہى فائدہ حاصل ہو سكے" اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 13 / 74 - 96 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب