جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

نماز ميں امام سے سبقت لے جانا

تاریخ اشاعت : 13-10-2006

مشاہدات : 8602

سوال

ہم نے اپنى مسجد ميں مشاہدہ كيا ہے كہ نماز ميں بعض لوگ امام كى حركت كے ساتھ ہى حركت ميں آجاتے ہيں نہ كہ امام كے بعد، اور بعض اوقات تو امام سے سبقت لے جاتے ہيں، ايسا كرنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" امام اقتدا اور پيروى كے ليے بنايا گيا ہے، چنانچہ جب وہ تكبير كہے تو تم تكبير كہو، اور اس كے تكبير كہنے سے قبل تكبير مت كہو، اور جب ركوع كرے تو تم ركوع كرو، اور تم اس كے ركوع كرنے سے قبل ركوع مت كرو، اورجب وہ سمع اللہ لمن حمدہ كہے تو تم اللہم ربنا و لك الحمد كہو، اور جب وہ سجدہ كرے تو تم سجدہ كرو، اس سے قبل سجدہ مت كرو، اور جب وہ كھڑے ہو كر نماز ادا كرے تو تم بھى كھڑے ہو كر نماز ادا كرو، اور جب وہ بيٹھ كر نماز ادا كرے تو تم سب بيٹھ كر نماز ادا كرو"

اسے ابو داود نے روايت كيا ہے، اور يہ الفاظ ابو داود كے ہيں، اس كى اصل صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں موجود ہے.

اس حديث سے امام كى متابعت اور پيروى كرنے كا وجوب نكلتا ہے، اور يہ كہ نماز كے سارے اعمال اور حركات و اقوال ميں امام قدوہ ہے، اس ليے اس كى مخالفت كرنا جائز نہيں، اور افضل يہ ہے كہ مقتدى امام كے عمل كے بعد عمل كرے، تو اس طرح مقتدى كا عمل امام كے بعد ہو گا جس كى بنا پر ايك ركن سے دوسرے ركن ميں جانے ميں امام سے مختلف نہيں ہو گا، اس ليے كہ حديث ميں امام اور مقتدى كے اعمال ميں فاء كے ساتھ عطف ہے جو ترتيب اور تعقيب پر دلالت كرتا ہے.

اسى طرح حديث سے يہ بھى نكلتا ہے كہ امام سے سبقت لے جانا حرام ہے اور اگر عمدا اور جان بوجھ كر ايسا كيا جائے تو نماز باطل ہو جائيگى، اور امام سے پيچھے رہنا بھى امام سے سبقت كرنے جيسے ہى جائز نہيں.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا:

" يقينا امام تو اقتدا اور پيروى كے ليے بنايا گيا ہے "

ائتمام اقتدا اور پيروى كو كہتے ہيں، اور پيروى اور متابعت يہ ہے كہ پيروى كرنے والا نہ تو موافقت كرتا ہے اور نہ ہى اس سے سبقت لے جاتا اور آگے بڑھتا ہے، بلكہ اس كے بعد اور پيچھے عمل كرتا ہے.

واللہ تعالى اعلم.

ماخذ: ماخوذ از كتاب: توضيح الاحكام من بلوغ المرام تاليف عبد اللہ بن عبد الرحمن البسام ( 144 )