اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ماضى ميں عورت كى نمازيں رہ گئى ہيں اسے كيا كرنا ہو گا ؟

تاریخ اشاعت : 19-07-2006

مشاہدات : 9379

سوال

ميرى خالہ ( ميرى پھوپھو ) نے مجھے درج ذيل سوال دريافت كرنے كا كہا ہے:
ماضى ميں اس كى كچھ نمازيں رہتى ہيں، اور اب وہ يہ معلوم كرنا چاہتى ہيں كہ شريعت اسلاميہ اس سلسلہ ميں ان پر كيا لازم كرتى ہے، آپ كے جواب دينے پر مشكور ہونگے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال ميں واضح نہيں كہ آپ كى خالہ يا پھوپھو كى نمازيں نيند كى بنا پر يا بھول كر رہ گئى يا پھر اس كے ہوش و حواس قائم نہ رہے يا كسى اور عذر كى بنا پر، آيا ان كى نمازيں عذر كى بنا پر رہيں يا كہ جان بوجھ كر عمدا ترك كى گئيں، بہر حال اگر تو ان كى نمازيں كسى عذر كى بنا پر رہى ہيں تو ان پر ان نمازوں كى قضاء كے ساتھ ساتھ تاخير كرنے پر توبہ بھى كرنا ہو گى.

ليكن اگر انہوں نے بغير كسى عذر يا نمازوں كى فرضيت كا انكار كرتے ہوئے رہيں، يا كہ ان كى ادائيگى ميں سستى و كاہلى ہوئى ہو تو علماء كرام كے اقوال ميں سے راجح قول يہ ہے كہ:

نماز كى فرضيت سے انكار كرنے والا يا پھر نماز ميں سستى و كاہلى كرتے ہوئے نماز ترك كرنے والا شخص كافر ہے، اس كے ليے نمازيں قضاء كرنے كا كوئى فائدہ نہيں، كيونكہ اللہ تعالى كے ليے كچھ رات ميں اعمال ہيں جو دن كو قبول نہيں ہوتے، اور كچھ اعمال دن كو ہيں جو رات كو قبول نہيں ہوتے.

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ كتاب ( ميں توبہ كرنا چاہتا ہوں ليكن ) كا مطالعہ ضرور كريں.

اور جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والا اگر بالكل نماز ترك كردے تو وہ كافر ہو جاتا ہے، چنانچہ اگر وہ اس سے توبہ كر لے اور نمازيں ادا كرنا شروع كر دے تو اسے ترك كردہ نمازوں كى قضاء كا حكم نہيں ديا جائيگا، ليكن اسے يہ نصيحت كى جاتى ہے كہ وہ كثرت سے نوافل ادا كيا كرے، كيونكہ اسلام قبول كرنے سے پہلے سب گناہ ختم ہو جاتے ہيں.

فضيلۃ الشيخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ميں ايك مسلمان عورت ہوں پہلے ميں نماز ادا نہيں كرتى تھى اور نہ ہى مجھے دينى امور كا كچھ علم تھا، ليكن اب اللہ تعالى نے مجھے ہدايت دى ہے اور ميں نماز روزہ ادا كرنے لگى ہوں، اور قرآن مجيد كى تلاوت اور تسبحيات بھى كرتى ہوں، ميں نے دس بار قرآن مجيد ختم كر ليا ہے، كيا اللہ تعالى ميرے پچھلے سب اعلانيہ اور پوشيدہ گناہ بخش دے گا ؟

كيا اس سے زيادہ اور كچھ بھى مجھے كرنا ہو گا تا كہ اللہ تعالى مجھے بخش دے ؟

شيخ حفظہ اللہ كاجواب تھا:

توبہ پچھلے سب گناہ ختم كر ڈالتى ہے، الحمد اللہ جب آپ سچى اور صحيح توبہ كرچكى ہيں، اور اللہ تعالى كى جانب سے فرض كردہ امور ادا كر رہى ہيں، اور جن امور كو اللہ تعالى نے حرام كيا ہے اس سے اجتناب كرتى ہيں تو توبہ پچھلے سب گناہ ختم كر دے گا، اور آپ كے پچھلے سارے گناہ بخش ديے جائينگے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

آپ كہہ ديجيے اے ميرے وہ بندوں جنہوں نے اپنے اوپر ظلم و زيادتى كر ركھى تم اللہ تعالى كى رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ، يقينا اللہ تعالى سب گناہ بخش دينے والا ہے .

حتى كہ توبہ سے تو شرك بھى معاف ہو جاتا ہے، چنانچہ جو شخص شرك كرے اور پھر اس سے توبہ كر لے تو اللہ تعالى اسے معاف كر ديتا ہے.

جيسا كہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے:

اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كافروں سے كہہ ديں كہ اگر وہ باز آ جائيں تو ان كے پچھلے سب گناہ معاف كر ديے جائينگے .

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اسلام اپنے سے پہلے تمام گناہ ختم كر ديتا ہے، اور توبہ اس سے قبل والے تمام گناہ مٹا ڈالتى ہے "

مسند احمد ( 4 / 204 ).

چنانچہ جب آپ نے سچى اور صحيح توبہ كر لى ہے، اور اپنے اوپر اللہ تعالى كى جانب سے فرض كردہ امور كى پابندى سے ادائيگى كرتى ہيں، اور اللہ تعالى كى جانب سے حرام كردہ امور سے اجتناب كر رہى ہيں، تو ان شاء اللہ پچھلے تمام گناہوں كى بخشش كے ليے يہى كافى ہے.

ليكن آپ كو چاہيے كہ مستقبل ميں اپنے اعمال ميں بہترى پيدا كريں اور توبہ كا التزام كرنے كے ساتھ ساتھ اسلامى امور ميں سے اللہ تعالى كى جانب سے اپنے اوپر فرض كردہ امور كى پابندى كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد