سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

نوافل كى قضاء كرنا

سوال

يہ كب كہا جا سكتا ہے كہ نفلوں كى قضاء نہيں، كيا اس ليے كہ اس كا وقت جاتا رہا ہے، جب ہميں علم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بعض اوقات نفلوں كى بھى قضاء وقت ختم ہو جانے بھى ادا كرتے تھے مثلا وتر ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كسى سبب كے ساتھ مقيد نفل كا سبب جاتا رہے تو اس كى قضاء نہيں ہے اس كى مثال يہ ہے كہ: اگر سورج گرہن ہو جائے اور انسان سويا ہوا ہو اور اٹھنے كے بعد اسے علم ہوا كہ سورج گرہن ہوا تھا تو وہ نماز كسوف ادا نہيں كرے گا، كيونكہ اس سنت كا سبب جاتا رہا ہے.

اور اسى طرح اگر كوئى شخص مسجد ميں داخل ہوا اور بہت دير تك مسجد ميں رہا اس ليے كہ وہ بغير وضوء كے ہے، ليكن پھر اسے ياد آيا كہ اس كا تو وضوء ہے تو وہ اٹھ كر تحيۃ المسجد ادا كرنے لگے تو وہ تحيۃ المسجد ادا نہ كرے كيونكہ اس سنت كا محل جاتا رہا ہے.

اور اس ميں ضابطہ اور قاعدہ يہ ہے كہ:

ہر وہ نفل جو كسى سبب كے ساتھ مقيد ہے اس كى قضاء نہيں، مثلا وتر ليكن وتر كى قضاء نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم وتر ميں نہيں كرتے تھے، بلكہ وہ وہ چاشت كے وقت بارہ ركعت ادا كرتے تھے، كيونكہ ان كے وتر كى تعداد زيادہ سے زيادہ گيارہ ركعات تھى، تو وہ وتر سے زيادہ كى قضاء كرتے تھے، ليكن وہ انہيں جفت بنا ليتے تھے كيونكہ اس كا وقت جاتا رہا تھا .

ماخذ: ماخوذ از: فتاوى فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين مجلۃ الدعوۃ عدد نمبر ( 1756 ) صفحہ نمبر ( 37 )