منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

مسجد كے باہر سے يا ريڈيو كے ذريعہ امام كى اقتدا كرنے كا حكم

تاریخ اشاعت : 28-06-2010

مشاہدات : 6498

سوال

رمضان المبارك ميں ہم نے ڈش سكرين پر ديكھا كہ بعض لوگ حرم مكى كے قرب و جوار ميں اپنے گھروں ميں ہى امام كعبہ كے ساتھ تراويح ادا كر رہے ہيں، اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو شخص مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنا چاہتا ہے اسے مسجد ضرور جانا چاہيے، اور اگر وہ اپنے گھر بيٹھا ہى امام كى اقتدا ميں نماز ادا كرتا ہے تو اس كى جماعت كے ساتھ نماز ادا نہيں ہو گى، چاہے وہ امام يا مقتديوں كو ديكھ بھى رہا ہو.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے اس مسئلہ ميں بہت اچھى تفصيل بيان كى ہے، شيخ اپنى كتاب: " زاد المستقنع كى شرح ميں " كہتے ہيں:

قولہ: " و كذا خارجہ ان راى الامام او المامومين "

اور اسى طرح اس كے باہر اگر وہ امام يا مقتديوں كو ديكھ بھى رہا ہو "

يعنى: اور اسى طرح اگر مقتدى مسجد كے باہر ہو تو ايك شرط كے ساتھ امام كى اقتدا صحيح ہے، كہ وہ امام يا مقتديوں كو ديكھ رہا ہو، اور مؤلف كى ظاہر كلام تو يہى ہے كہ صفوں كا آپس ميں ملا ہوا ہونا ضرورى نہيں، اگر فرض كريں ايك شخص مسجد كے پڑوس ميں رہتا ہے، اور اپنى كھڑكى سے امام اور مقتديوں كو ديكھے اور اپنے گھر ہى نماز ادا كرلے اور اس كے ساتھ كوئى اور بھى ہو ہو تو اس كى انفراديت ( يعنى وہ انفراديت سے خارج ہو جاتا ہے ) زائل ہو جاتى ہے، تو اس كا اس امام كى اقتدا كرنا صحيح ہے؛ كيونكہ وہ تكبير سن رہا ہے، اور امام يا مقتديوں كو ديكھ رہا ہے.

اور مؤلف كے كلام كا ظاہر يہ ہے كہ: سارى نماز ميں اسے مقتدى يا امام نظر آنا چاہيے؛ تا كہ اقتدا اور پيروى رہ نہ جائے، اور مذہب يہ ہے كہ صرف اسے ديكھنا كافى ہے چاہے نماز كے كچھ حصہ ميں ہى.

تو پھر اگر مسجد سے باہر ہو تو اس كے ليے دو شرطيں ہيں:

پہلى شرط:

تكبير سننا.

دوسرى شرط:

امام يا مقتديوں كا نظر آنا، مؤلف كى كلام كے ظاہر پر سارى نماز ميں نظر آئيں يا مذہب كے مطابق نماز كا كچھ حصہ.

اور اس كى كلام كا ظاہر يہ ہے كہ: اگر مقتد مسجد كے باہر ہو تو صفوں كا ملا ہوا ہونا شرط نہيں، مذہب يہى ہے.

دوسرا قول:

صاحب " المقنع " اسى قول پر چلے ہيں وہ يہ كہ: صفوں كا آپس ميں متصل ہونا ضرورى ہے، اور يہ كہ مسجد سے باہر والوں كى اقتدا اس وقت صحيح ہو گى جب صفيں متصل ہوں؛ كيونكہ جماعت ميں واجب يہ ہے كہ سب افعال ميں مجمتع ہوں، اور يہ مقتدى كى امام اور جگہ ميں متابعت ہے.

وگرنہ ہم كہتے: امام اور ايك مقتدى اور امام مسجد ميں ہو، اور دو مقتدى اس كمرہ ميں ہوں كہ مسجد اور حجرے كے درميان مسافت ہو، اور دو اور مقتدى ايك تيسرے كمرہ ميں ہوں جو مسجد سے كچھ مسافت پر واقع ہو اس ميں كوئى شك نہيں كہ يہ جماعت كى تقسيم اور تفريق ہے مجمتع نہيں اور خاص كر يہ قول كہنے والے پر كہ: مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنا واجب ہے.

چنانچہ اس مسئلہ ميں صحيح يہى ہے كہ: مسجد كے باہر والوں كى اقتدا ميں صفيں متصل ہونا ضرورى ہيں، اگر صفيں متصل نہ ہوں تو نماز صحيح نہيں ہو گى.

اس كى مثال يہ ہے كہ: حرم مكى كے ارد گرد بہت سى بلڈنگيں ہيں جن كے فليٹوں ميں لوگ نماز پڑھتے ہيں تو انہيں سارى نماز يا نماز كے كچھ حصہ ميں امام يا مقتدى نظر آتے ہيں، چنانچہ مؤلف كى كلام كے مطابق نماز صحيح ہو گى، اور ہم انہيں كہينگے: جب تم اقامت سنو تو اپنى جگہ پر ہى رہ كر امام كے ساتھ نماز ادا كرلو اور مسجد حرام نہ آؤ.

اور دوسرے قول كے مطابق: نماز صحيح نہيں ہو گى؛ كيونكہ صفيں متصل نہيں ہيں، اور يہى قول صحيح ہے، اس سے بعض معاصر علماء كے اس فتوى كا رد ہوتا ہے كہ ريڈيو كے ذريعہ امام كى اقتدا كرنى جائز ہے، اور اس ميں " الاقناع بصحۃ صلاۃ الماموم خلف المذياع " كے نام سے ايك پمفلٹ لكھا گيا ہے.

اور اس قول سے يہ لازم آتا ہے كہ ہم مختلف مساجد ميں نماز جمعہ ادا نہ كريں، بلكہ مسجد حرام كے امام كى اقتدا كر ليں؛ كيونكہ اس ميں جماعت زيادہ ہے تو اس طرح افضل ہو گى.

حالانكہ ريڈيو كے پيچھے نماز ادا كرنے والا نہ تو امام كو ديكھ رہا ہے اور نہ ہى مقتديوں كو، چنانچہ جب ڈش سكرين آ جائے جو براہ راست نشر كرتى ہے تو پھر باب اولى ہو گا.

ليكن بلا شك يہ قول باطل اور مردود ہے؛ كيونكہ يہ نماز باجماعت يا جمعہ كو باطل كرنے كى طرف لے جاتا ہے، اور نہ ہى اس ميں صفيں متصل ہيں، اور نماز جمعہ اور نماز باجماعت كے شرعى مقصد سے بھى يہ بعيد ہے.

اور ريڈيو كے پيچھے نماز ادا كرنے والا ايسے امام كے پيچھے نماز ادا كر رہا ہے جو اس كے آگے نہيں، بلكہ اس كے اور امام كے درميان بہت زيادہ مسافت ہے، اور يہ شر كا روازہ كھولنے كا باعث ہے؛ كيونكہ نماز جمعہ ميں سستى كرنے والا شخص يہ كہہ سكتا ہے:

جب ريڈيو اور ٹى وى كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح ہے تو ميں اپنے گھر ميں اپنے بيٹے اور بھائى وغيرہ كے ساتھ نماز ادا كرنا چاہتا ہوں، اس طرح ہمارى صف بن جائيگى.

راجح يہ ہے كہ: مسجد كے باہر امام كى اقتدا اس صورت ميں ہو سكتى ہى جب صفيں متصل ہوں اور اس ميں دو شرطوں كا ہونا ضرورى ہے:

1 - اسے تكبير سنائى ديتى ہو.

2 - صفيں متصل ہوں.

ليكن رؤيت كى شرط ميں كچھ نظر ہے، جب تكبير سنائى ديتى ہو اور صفيں متصل ہوں تو اقتدا صحيح ہے، اور اس بنا پر جب مسجد بھر جائے اوراس ميں جگہ نہ ہو اور صفيں متصل ہوں اور لوگ بازاروں اور دوكانوں كے تھڑوں پر نماز ادا كريں تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 297 - 300 )؟

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب