جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا منگيتر كا ايك دوسرے سے پيارومحبت كى باتيں اور افعال كرنا روزے پر اثر انداز ہوتے ہيں ؟

تاریخ اشاعت : 22-10-2005

مشاہدات : 6618

سوال

ميرا منگيتر مسلمان ہے، بہت جدوجھد اور كوشش كے بعد رمضان كا معنى اور روزے كى حكمت كا علم ہوا، گزارش ہے كہ مجھے يہ بتائيں كہ روزے كے دوران پيار و محبت كى كونسى باتيں اور افعال كرنے جائز ہيں ( مثلا ہاتھوں ميں ہاتھ ڈالنا، اور ايك دوسرے كے ساتھ محبت كے اظہار والے كلمات كا تبادلہ كرنا وغيرہ ) ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

روزے دار كے ليے اپنى بيوى سے ( جس كے ساتھ اس كا نكاح ہو چكا ہے ) كے ساتھ ايسے كلمات كا تبادلہ كرنا جس ميں پيارو محبت كا اظہار ہوتا ہو جائز ہے، اور اسى طرح اس كے بعض افعال مثلا بيوى كا بوسہ لينا اور اس سے معانقہ كرنا اسے گلے لگانا يا اس كا ہاتھ تھامنا جائز ہے، ليكن اس مين شرط يہ ہے كہ اگر وہ اپنے آپ پر كنٹرول ركھتا ہو تو پھر ايسا كر سكتا ہے، اور اپنى شھوت كو قابو ميں ركھ سكتا ہو، اس ليے كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم روزے كى حالت ميں ان كا بوسہ ليا كرتے تھے، اور ان سے مباشرت كيا كرتے تھے، ليكن انہيں تم سے زيادہ اپنے آپ پر كنٹرول تھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1792 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1854 )

حديث ميں مباشرت كا معنى ہاتھ سے چھونا ہے، جو كہ جسم كا ايك دوسرے سے ملنے ميں سے.

اور ارب سے مراد نفس كى ضرورت اور حاجت ہے، جس سے جماع مراد ہے.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" آدمى كا روزے كى حالت ميں اپنى بيوى كے ساتھ خوشطبعى كرنا، اور اس كا بوسہ لينا اور بغير جماع كے اس سے مباشرت كرنا يہ سب كچھ جائز ہے اور اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم روزے كى حالت ميں مباشرت كيا كرتے تھے.

ليكن اگر شھوت تيز اور زيادہ ہونے كى بنا پر اللہ تعالى كے حرام كردہ افعال ميں پڑنے كا خدشہ ہو تو ايسا كرنا مكروہ ہے، اور اگر اس كى منى خارج ہو گئى تو دن كا باقى حصہ بغير كھانے پينے كے گزارے گا اور اسے اس دن كے بدلے ميں قضاء بھى كرنا ہوگى، ليكن جمہور اہل علم كے ہاں اس پر كفارہ نہيں ہے.

علماء كے صحيح قول كےمطابق مذى سے روزہ فاسد نہيں ہوتا، كيونكہ اصل ميں روزے كى سلامتى اور باطل نہ ہونا ہے، اور اس ليے بھى كہ اس سے بچنا مشكل ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 4 / 202 ).

يہ تو خاوند اور بيوى كے ساتھ خاص تھا، ليكن نكاح سے قبل منگنى كى حالت ميں منگيتر كا اپنى منگيتر سے پيار و محبت كى باتيں كرنا اور اس كا ہاتھ تھامنا جائز نہيں، كيونكہ وہ بھى باقى اجنبيوں كى طرح اس كے ليے اجنبى اور غير محرم ہے، اور كسى ايك كو بھى اس معاملہ ميں سستى و كاہلى سے كام لينا جائز نہيں ہے، اور اس ميں بھى كوئى فرق نہيں كہ منگيتر لڑكى مسلمان ہو يا عيسائى.

مسلمانوں كے روزوں كے متعلق آپ كے اس سوال سے ہميں بہت خوشى ہوئى ہے، جو كہ آپ كى اس دين حنيف كے ساتھ محبت اور اس كے احكام كے متعلق معلومات حاصل كرنے كى رغبت كى دليل ہے، ہم آپ كو اس كى مباركباد ديتے اور اس پر ابھارتے ہيں، اور اللہ سبحانہ وتعالى سے دعاگو ہيں كہ آپ كو حق اور اللہ تعالى كو جو چيز محبوب اور پسند ہے اس كى اتباع و پيروى كے علم كو تلاش كرنے كى طرف لے چلے، اور اسى طرح ہم اللہ تعالى سے يہ بھى دعا كرتے ہيں كہ وہ آپ اور آپ كے منگيتر كے مابين شادى كو توفيق دے، اور اس كے ساتھ شادى كى سعادت نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب