جمعہ 5 جمادی ثانیہ 1446 - 6 دسمبر 2024
اردو

حاملہ اوردودھ پلانے والی روزہ نہيں رکھیں گی بلکہ وہ قضاء کرینگی اورانہیں کھاناکھلانا کفائت نہيں کرے گا

سوال

میں نے پڑھا ہے کہ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کے لیے بدون قضاء کے کھانا کھلا کرروزہ ترک کرنا جائز ہے ، اوراس کی دلیل میں ابن عمررضي اللہ تعالی روایت پیش کرتے ہیں کیا یہ صحیح ہے ہمیں اس کے متعلق بادلائل معلومات فراہم کریں اللہ تعالی آپ کو برکت سے نوازے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت اگر روزے نہ رکھے تواس کے حکم میں علماء کرام کے کئي ایک اقوال ہیں :

پہلاقول : انہیں صرف روزوں کی قضاء کرنا ہوگي ، امام احمد ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے اورصحابہ کرام میں سے علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ نے بھی یہی کہا ہے ۔

دوسرا قول : اگرانہیں آپ پر خدشہ ہوتوصرف قضاء ہوگی ، اوراگرانہیں اپنے بچے کا خدشہ ہو توقضاء کے ساتھ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائيں گی ، امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ تعالی کا مسلک یہی ہے ، جصاص نے ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما سے یہی بیان کیا ہے ۔

تیسرا قول : انہيں صرف کھانا کھلانا ہوگا ،اوران پرقضاء نہيں ، صحابہ کرام میں سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کایہی قول ہے ، اورابن قدامہ رحمہ اللہ نے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے بھی یہی بیان کیا ہے ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 3 / 37 ) ۔

ابوداود رحمہ اللہ تعالی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ :

اوران پرجواس کی طاقت رکھتے ہیں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ہے " ابن عباس کہتے ہیں کہ بوڑھے مرد اوربوڑھی عورت کے لیے رخصت تھی کہ وہ روزے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی روزہ نہ رکھیں بلکہ اس کے بدلے میں ہردن ایک مسکین کوکھانا کھلائيں ، اورحاملہ اوردودھ پلانے والی عورت بھی اگرخوف محسوس کرے تو وہ بھی ۔

ابو داود کہتے ہیں : یعنی اگر انہيں اپنے بچے کا خدشہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں بلکہ اس کے بدلے میں کھانا کھلائيں ۔سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2318 )

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں : اس کی سند حسن ہے ۔

بزار نے نے بھی اسے روایت کیا ہے اوراس کے آخر میں یہ زیادہ کیا ہےکہ :

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اپنی حاملہ ام ولد کو کہتے تھے ، تواس کی مانند ہے جوروزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھے اس لیے تجھ پر فدیہ ہے اورقضاء نہيں ۔ حافظ رحمہ اللہ نے التلخیص میں کہا ہے کہ : دار قطنی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔

جصاص رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب احکام القرآن اس مسئلہ میں صحابہ کرام کا اختلاف ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

اس میں سلف رحمہ اللہ تعالی تین وجھوں میں اختلاف کیا ہے : علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے : جب وہ روزہ نہ رکھیں تو انہيں قضاء کرنا ہوگي ان پر فدیہ نہيں ہے ، اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں : ان پرقضاء نہیں بلکہ فدیہ ہے ، اورابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما کا قول ہے : انہيں قضاء اورفدیہ دونوں ادا کرنا ہونگے ۔ اھـ

صرف قضاء کے قائلین نے کئي ایک دلائل سے استدلال کیا ہے :

1 - انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( بلاشبہ اللہ تعالی نے مسافر سے نصف نماز اورروزہ معاف کردیا ہے ، اورحاملہ اوردودھ پلانے والی عورت سے بھی ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 2274 )

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن نسائي میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کومسافر کی مانند قرار دیا ہے ، مسافر روزہ نہيں رکھتا بلکہ بعد میں اس کی قضاء کرتا ہے تواسی طرح حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت بھی ۔

دیکھیں : احکام القرآن للجصاص ۔

2 - مریض پر قیاس : جس طرح مریض روزہ نہيں رکھتا اوربعد میں قضاء کرتا ہے ، تواسی طرح حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت بھی قضاء کرے گی ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامۃ المقدسی ( 3 / 37 ) المجموع ( 6 / 273 ) ۔

علماء کرام کی ایک جماعت نے یہی قول اختیار کیا ہے ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی مجموع الفتاوی میں کہتے ہيں :

حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کا حکم بھی مريض کا حکم ہی ہے ، جب ان دونوں پر روزہ رکھنے میں مشقت ہو ان کے لیے روزہ نہ رکھنا مشروع ہے ، اورمريض کی طرح جب استطاعت ہو توقضاء کرنا ہوگی ، اوربعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ ہردن کے بدلے میں انہیں ایک مسکین کوکھانا کھلانا ہوگا ، اوریہ قول ضعیف اور مرجوح ہے ۔

صحیح اورراجح قول یہی ہے کہ ان پرمسافر اور مریض کی طرح صرف قضاء ہوگی کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

تم میں سے جو بھی مریض ہو یا مسافر وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کریں البقرۃ ( 184 ) ۔ اھـ

دیکھیں مجموع الفتاوی ( 15 / 225 ) ۔

اورشیخ رحمہ اللہ تعالی کا یہ بھی قول ہے :

اس میں صحیح یہ ہے کہ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت قضاء کرے گی ، اورابن عباس اورابن عمر رضي اللہ تعالی عنہم سے جویہ مروی ہے کہ حامل اوردودھ پلانے والی عورت کھانا کھلائے ، یہ قول مرجوح اوردلائل شرعیہ کے خلاف ہے ۔

اور پھر اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اور جوکوئي مریض ہویا مسافر وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے البقرۃ ( 185 ) ۔

حاملہ اوردودھ پلانے والی کو مریض کے ساتھ ہی ملایا جائے گا اوروہ بوڑے اورعاجز شخص کے حکم میں نہيں ، بلکہ وہ دونوں مریض کے حکم میں ہیں لھذا وہ بھی استطاعت ہونے کے وقت بطور قضاء روزہ رکھیں گے چاہے قضاء میں تاخیر ہوجائے ۔ ا ھـ

دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 15 / 227 ) ۔

اورفتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے کہ :

اگرحاملہ عورت رمضان کےروزے رکھنے سے اپنے آپ یا پھر اپنے بچے کونقصان ہونے کا خدشہ محسوس ہوتواس پر صرف قضاء ہوگي ، اس میں اس کی حالت بھی مریض ہی کی طرح ہوگی جوروزے رکھنے کی طاقت نہيں رکھتا یا پھراس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورجوکوئي مریض ہویا مسافر وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے البقرۃ ( 185 ) ۔

اوراسی طرح دودھ پلانے والی عورت بھی جب اپنے آپ پر خدشہ محسوس کرے کہ رمضان میں اگراس نے بچے کو دودھ پلایا تواسے نقصان ہوگا یا پھرروزہ رکھے توبچے کونقصان ہوگااوراسے دودھ نہیں پلائے گی تواسے روزہ نہ رکھے اوربعد میں صرف قضاء کرے گی ۔ اھـ

دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 220 ) ۔

اورفتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں یہ بھی ہے کہ :

حاملہ عورت پر روزے رکھنا واجب ہیں ، لیکن اگراسے اپنے آپ یا بچے پرخدشہ ہو تواسے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ، لیکن وضع حمل اورنفاس ختم ہونے کے بعد روزوں کی قضاءکرنا ہوگي ۔۔۔ روزوں کے بدلے کھانا کھلانا کفائت نہیں کرے گا ، بلکہ روزے ضرور رکھنا ہونگے اورروزے ہی کھانے سے کافی ہیں۔ اھـ دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10/ 226 ) ۔

شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی شرح الممتع میں اس مسئلہ میں دونوں پرصرف قضاء کا قول اختیار کیا ہے اورعلماء کرام کااختلاف ذکر کرنے کے بعدکہتے ہیں :

میرے نزدیک یہ قول سب سے زيادہ راجح ہے ، اس لیے کہ یہ مریض اورمسافر کی طرح ہیں جس کی بنا پران پر صرف قضاء لازم ہوگی ۔ اھـ

دیکھیں الشرح الممتع ( 6 / 220 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب