منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

خنزير كى نجاست سے طہارت و پاكيزگى اختيار كرنے كى كيفيت

سوال

ميں بچپن ميں اپنے گھروالوں كے ساتھ سير و تفريح كے ليے كسى دوسرے ملك گئى تو دوران سفر ہميں خنزير كے اجزاء پر مشتمل بسكٹ ديے گئے جب ميرى والدہ كو علم ہوا تو انہوں نے ہميں يہ بسكٹ كھانے سے منع كر ديا، مجھے ياد آتا ہے كہ ہم نے اپنے ہاتھ اور منہ مٹى اور پانى كے ساتھ نہيں دھوئے تھے ( سات بار جن ميں ايك بار مٹى سے شامل ہے ) جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خنزير يا خنزير كى بنى ہوئى كسى چيز كو چھونے والے كو حكم ديا ہے.
اس كے كئى برس بعد ميں اپنے ملك سے باہر گئى اور غلطى سے خنزير كا گوشت كھا ليا ليكن ميں نے اپنا منہ مٹى اور پانى سے نہيں دھويا.
يہ دونوں واقعہ كئى برس قبل پيش آئے اور ميرے منہ اور ہاتھ پر نہ تو خنزير كا ذائقہ باقى رہا ہے اور نہ ہى بو اور نہ ہى رنگ تو كيا ہم پر واجب ہے كہ اب دھو ليں ؟
مجھے خدشہ ہے كہ اللہ تعالى نے ان دونوں حالتوں ميں ہمارى نمازيں قبول نہيں كيں، آپ سے گزارش ہے كہ اس كى وضاحت كريں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

غلطى سے خنزير كا گوشت كھانے ميں آپ پر كوئى گناہ نہيں كيونكہ آپ نے عمدا ايسا نہيں كيا، اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم سے بھول چوك ميں جو كچھ ہو جائے اس ميں تم پر كوئى گناہ نہيں، البتہ گناہ اس ميں ہے جو تم دل كے ارادہ سے كرو، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے الاحزاب ( 5 ).

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى نے ميرى امت سے غلطى اور اور بھول چوك اور جس پر انہيں مجبور كر ديا گيا ہو معاف كر ديا ہے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2043 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

مسلمان شخص كو اپنے كھانے پينے كے متعلق بہت احتياط سے كام لينا چاہيے خاص كر جب وہ كسى غير مسلم ميں ہو جہاں گندى اور حرام اشياء كا استعمال كيا جاتا ہو.

رہا مسئلہ خنزير كى نجاست سے طہارت و پاكيزگى كيفيت تو بعض علماء كرام نے كتے پر قياس كرتے ہوئے سات بار جن ميں ايك بار مٹى سے دھونا شامل ہے دھونے قرار ديا ہے.

اور صحيح يہ ہے كہ خنزير كى نجاست ميں صرف ايك بار ہى دھونا كافى ہے، امام نووى رحمہ اللہ اس حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:

( اور اكثر علماء كرام كہتے ہيں كہ خنزير ( كى نجاست ) كوسات بار دھونے كى ضرورت نہيں، امام شافعى كا قول يہى ہے، اور دليل ميں يہ قوى معلوم ہوتا ہے ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اسى قول كو راجح قرار ديتے ہوئے كہا ہے:

اور فقھاء رحمہم اللہ نے اس كى نجاست كو كتے كى نجاست سے ملحق كيا ہے، كيونكہ اس كى نجاست كتے كى نجاست سے زيادہ خبيث ہے تو اس ليے حكم ميں اس سے زيادہ اولى ہے.

ليكن يہ قياس ضعيف ہے؛ اس ليے كہ خنزير كا ذكر قرآن مجيد ميں ہے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى خنزير پايا جاتا تھا ليكن اسے كتے سے ملحق كرنا ثابت اور وارد نہيں، اس ليے صحيح يہى ہے كہ اس كى نجاست دوسرى نجاست كى طرح ہى ہے، لہذا جس طرح دوسرى نجاسات دھوئى جاتى ہيں اسے بھى اسى طرح دھويا جائيگا ) انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 495 ).

آپ سوال نمبر ( 22713 ) كے جواب كا مطالعہ بھى كريں.

اور باقى نجاسات كو دھونے ميں صحيح يہى ہے كہ جس سے نجاست زائل ہو جائے اتنا دھونا كافى ہے، يہ كسى معين تعداد كے ساتھ مشروط نہيں ہے.

خنزير كو چھونے سے پاكيزگى اخيتار كرنے اور طہارت كے طريقہ كے بارہ جو كچھ بھى كہا جائے، پھر بھى اب اور اس وقت آپ كو اپنے جسم دھونے كى كوئى ضرورت نہيں، اور نہ ہى اس كا آپ كى نمازوں پر كوئى اثر ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب