منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اللہ كى مخلوق ہونے كے باوجود درختوں اور پتھروں كى تصاوير بنانا

23354

تاریخ اشاعت : 02-02-2008

مشاہدات : 8586

سوال

عمارتوں وغيرہ دوسرى غير متحرك اشياء كى تصاوير بنانا كيوں جائز ہيں، حالانكہ يہ بھى اللہ كى مخلوق ميں شامل ہوتى ہيں ؟
اور پھر فرمان بارى تعالى ہے: اس شخص سے زيادہ ظالم كون ہے جو ميرى مخلوق كى طرح كوئى چيز پيدا كرنے كى كوشش كرتا ہے، ت واسے چاہيے كہ وہ گندم يا جو كا دانہ پيدا كر كے دكھائے.
اللہ تعالى نے ہميں غير متحرك اشياء كى مثال كيوں دى ہے، اور پرندوں يا لوگوں كى مثال كيوں نہيں دى ؟
مجھے خدشہ ہے كہ اس سے مراد يہ ہے كہ غير متحرك اشياء كى تصاوير بنانا بھى جائز نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سب تعريفات اللہ تعالى كى ہيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام كے بعد:

جمہور علماء كرام كے ہاں درخت اور عمارتوں وغيرہ دوسرى اشياء جن ميں روح نہيں كى تصاوير بنانا جائز ہے، اور انہوں نے اس پر كئى ايك احاديث سے استدلال كيا ہے، جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:

امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے صحيح بخارى اور مسلم ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئےسنا:

" جس نے دنيا ميں كوئى تصوير بنائى تو روز قيامت اسے اس ميں روح ڈالنے كا مكلف بنايا جائيگا، اور وہ اس ميں روح نہيں ڈال سكے گا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5963 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2110 ).

چنانچہ اس حديث سے يہ معلوم ہوا كہ اس حديث ميں تصوير سے مراد اس چيز كى تصوير كشى كرنا منع ہے جس ميں روح ہو، اور اس مفہوم كى تائيد اس سے بھى ہوتى ہے كہ حديث كے راوى ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے درخت وغيرہ دوسرى اشياء جن ميں روح نہيں كى تصاوير بنانے كے جواز كا فتوى ديا ہے.

صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں سعيد بن ابى الحسن سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كے پاس تھا كہ ايك شخص آيا اور كہنے لگا:

اے ابو عباس ميں ايسا انسان ہوں جس كى معيشت كا انحصار ہاتھ سے اشياء تيار كرنا ہے، اور ميں يہ تصاوير تيار كرتا ہوں، تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: ميں تو تجھے وہى حديث بيان كرونگا جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنى ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى كوئى تصوير بنائى تو اللہ تعالى اسے عذاب دے ديگا حتى كہ وہ شخص اس ميں روح ڈال دے، اور وہ اس ميں كبھى بھى روح نہيں ڈال سكےگا "

تو وہ شخص بہت شديد كانپنے لگا اور ڈر گيا حتى كہ ا سكے چہرے كا رنگ زرد ہو گيا، تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ اسے كہنے لگے: تيرے ليے ہلاكت ہو اگر تو يہى كام كرنا چاہتا ہے تو تم ان درختوں وغيرہ ہر چيز كى تصاوير بناؤ جن ميں روح نہيں ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2225 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2110 ).

اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ان تصاوير بنانے والوں كو روز قيامت عذاب ديا جائيگا، حتى كہ انہيں كہا جائيگا تم نے جو كچھ بنايا ہے اسے زندہ كرو، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

جس گھر ميں تصاوير ہوں وہاں فرشتے داخل نہيں ہوتے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5181 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2108 ).

تو يہ حديث اس پر دلالت كرتى ہے كہ عذاب كا تعلق اس سے ہے جس ميں روح كے تعلق سے زندگى آتى ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم اسے زندہ كرو جسے تم نے پيدا كيا ہے "

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان:

" وہ گندم كا دانہ يا جو كا دانہ پيدا كريں "

اس سے مراد عاجز ہو جانا ہے، كيونكہ چاہے وہ جو اشكال بھى بنا ليں جو ان دانوں اور نباتات كے مشابہ ہيں، تو يہ ممكن ہى نہيں كہ وہ اس ميں ان نباتات جيسى خاصيت بنا سكيں، تو يہ ممكن نہيں كہ اس دانے كو كاشت كا جا سكے، اور وہ اگ آئےوغيرہ.

تو جب مخلوق ايك دانہ بنانے سے عاجز ہوں جو اللہ تعالى كے پيدا كرنا دانے كے بعض خصائص كے مشابہ ہو، تو وہ جو تصاوير اور مجسمے بناتے ہيں ان ميں روح ڈالنے سے تو اور بھى زيادہ عاجز ہونگے، تو اس سے يہ ظاہر ہوا كہ حديث ميں جو بيان ہوا ہے اس سے مقصود وہ نہيں جس كى طرف فورا ذہن جاتا ہے كہ دانوں اور درخت اور بغير روح والى اشياء كى تصاوير بنانا بھى حرام ہے، بلكہ اس سے مقصود عاجز ہونا ہے جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب