منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

دخول سے قبل طلاق دے دى اور اب اس سے رجوع كرنے كى سوچ ہے

70242

تاریخ اشاعت : 24-02-2011

مشاہدات : 5844

سوال

ميرى تقريبا ايك برس تك منگنى رہى اور ہمارا شرعى عقد نكاح بھى ہو چكا تھا، ہمارى اور سسرال والوں كى طرف سے اتفاق يہ ہوا كہ يہ تعلقات منگنى تك ہى محدود رہيں گے اور سال كے آخر ميں جب ميرى تعليم مكمل ہو جائيگى تو رخصتى ہوگى اس پر سب كے دستخط بھى ہوئے.
ليكن اس عرصہ ميں ميرے منگيتر اور ميرے گھر والوں كے درميان غلط فہمى سے پيدا ہوگئى اور ميرے والدين نے ميرے منگيتر كو مجھ سے ملنے كى مخالفت كى اور محسوس كرنے لگے كہ يہ شخص ميرے ليے مناسب نہيں.
ميں مانتى ہوں كہ بعض اوقات ميرا خاوند دوسروں كا احترام نہيں كرتا اور ابھى اس ميں پختگى نہيں ہے، ليكن اس كے ساتھ ميں اس سے محبت كرتى اور اس كے معاملات ميں اس كے ليے عذر اور بہانہ تلاش ليتى رہى ہوں.
وہ شخص دوسرے شہر ميں رہتا ہے اور ہم دوسرے شہر ميں بستے ہيں اس ليے ہمارا تعلق دور سے ہى قائم رہا ہے، اور يہ غلط فہمى آہستہ آہستہ بڑھتى چلى گئى حتى كہ وہ مجھ سے مطالبہ كرنے لگا كہ ميں فورا اس كے ساتھ رہنے كے ليے وہاں سے منتقل ہو جاؤں وگرنہ وہ مجھے طلاق دے دےگا، ميں نے اسے بتايا كہ ہمارا يہ اتفاق ہوا تھا كہ پہلے رخصتى كى تقريب پہلے ہوگى.
تو وہ كہنے لگا: بعد ميں بھى رخصتى كى تقريب كى جا سكتى ہے، ليكن اس وقت تو ميں اس كى بيوى ہوں اور مجھے اس كے ساتھ رہنا چاہيے، ميرے يہ معاملہ بہت مشكل تھا، ميں مجبور ہو گئى كہ يا تو اپنے منگيتر كو اختيار كروں يا پھر اپنے خاندان كو.
ميں اس وقت تك اسے خاوند كے روپ ميں نہ ديكھتى تھى اور ميرے ليے معاملہ بہت مشكل تھا اور اميدوں كى ناكامى كا باعث تھا.
ميں نے اسے بتايا كہ ميں اپنے گھر والوں كى قربانى نہيں دے سكتى، اس ليے اس نے تعلق توڑ ديا اور ہمارے امام كو ليٹر بھيجا كہ اس نے مجھے طلاق دے دى ہے، تعلق ختم كيے ہوئے تقريبا پانچ ماہ ہونے كو ہيں، ليكن ايك ہفتہ قبل ميں نے اسے ديكھا تو مجھے بڑى پريشانى ہوئى، ميں گناہ محسوس كرتى ہوں كہ ميں نے اس كى بات نہ مان كر غلطى كى ہے، ميں يہ دريافت كرنا چاہتى ہوں كہ آيا شريعت ميں ہمارے ليے كوئى صلح كى گنجائش ہے ؟
كيا ميں اس كے پاس واپس جا سكتى ہوں مجھے خوف ہے كہ ميں اس كے علاوہ كسى اور سے محبت نہ كر سكوں گى اور وہ ہميشہ ميرے خيالات ميں بسا رہےگا، ميں جانتى ہوں كہ ہو سكتا ہے ہم ايك دوسرے كے ليے مناسب نہ ہوں، ليكن اسى وقت يہ بھى ہے كہ ہم ايك دوسرے كو اچھى طرح جانتے ہيں، اور ہمارے تعلقات بہت قوى اور گرمجوشى والے تھے، اب مجھے معلوم نہيں ہو رہا كہ ميں كيا كروں.
ميرے والدين ہمارے تعلقات كے بالكل مخالف ہيں، مجھے معلوم ہے كہ والدين كے موقف كے كچھ صحيح اسباب ہيں، ليكن اس كے باوجود ميں اپنے سابقہ خاوند كى طرف مائل ہوں، اور ميں اس كى طرف واپس جانا چاہتى ہوں.
اور اگر يہ تعلقات دوبارہ قائم كرنا مناسب نہيں تو كيا اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كے ليے كچھ كرنا ممكن ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جب عقد نكاح ہو جائے تو منگيتر كے ليے اس كى منگيتر بيوى بن جاتى ہے، ليكن جب رخصتى كے ليے ايك وقت مقرر كر ليا جائے اور شرط ركھى جائے كہ رخصتى بعد ميں ہو گى تو رخصتى سے قبل خاوند كے پاس جانا لازم نہيں كيونكہ دونوں طرف سے شرط پر موافقت ہے.

اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان ہے:

" مسلمان اپنى شروط پر ( قائم رہتے ) ہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1352 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3594 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" شروط ميں سب سے زيادہ شرط پورى كرنے كى حقدار وہ شرط ہے جس كے ساتھ تم نے شرمگاہ حلال كى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2721 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1418 ).

اس بنا پر آپ كا اس كے پاس نہ جانے ميں كوئى گناہ نہيں بلكہ سال ختم ہونے سے قبل ہى اس نے مطالبہ كر كے غلطى كى ہے كيونكہ ايك برس كا اتفاق تھا، اور اس نے آپ پر اثرانداز ہونے كى كوشش كر كے بھى غلطى كى ہے كہ آپ اپنے والدين كى مخالفت كريں، اور پھر اس نے طلاق دينے ميں جلدى كر كے بھى غلطى كا ارتكاب كيا ہے.

يہ سب كچھ اس كے عدم پختگى كى علامت اگر وہ آپ كى حرص ركھتا ہوتا تو سال ميں باقى مانندہ مدت كا انتظار كرتا اور اتنى جلدى تعلقات ختم نہ كرتا.

دوم:

جب كوئى شخص اپنى بيوى كو دخول سے قبل طلاق دے دے تو صرف طلاق كى بنا پر ہى وہ عورت اس سے بائن ہو جاتى ہے، اس ميں رجوع نہيں ہو سكتا، اور نہ ہى اس ميں عدت ہے، ليكن اس ميں كوئى حرج نہيں كہ اگر آپ راضى ہوں اور عورت كا ولى بھى موافق ہو تو وہ اس سے دوبارہ نكاح كر لے اس ميں مہر بھى نيا ہو گا اور عقد نكاح بھى نيا.

سوم:

اگر آپ كے گھر والے اسے آپ كے ليے مناسب خيال نہيں كرتے تو آپ كو اپنے گھر والوں كى اطاعت كرنى چاہيے، خاص كر جب آپ يہ اقرار كرتى ہيں كہ اس موقف ميں ان كے پاس پختہ اسباب ہيں، رہا يہ مسئلہ كہ آپ اس سے محبت كرنے لگى ہيں اور دل اس كے ساتھ لگ گيا ہے تو خاوند اور اس كى بيوى كے مابين يہ ايك طبعى چيز ہے كہ ان ميں محبت ہوتى ہے.

جب اللہ تعالى آپ كو كوئى اور خاوند دےگا تو ان شاء اللہ آپ اس سے بھى محبت كريں گى، شادى تو ايك لمبى زندگى ہوتى ہے، يہ صرف اكيلے جذبات پر مبنى نہيں، اس ليے شريعت اسلاميہ كى يہ حكمت ہے كہ اس نے شادى ميں عورت كے ولى كى موافقت شرط ركھى ہے؛ كيونكہ عورت تو كمزور دل كى مالك ہے وہ جذبات ميں آ كر مغلوب ہو جاتى ہے اور ہو سكتا ہے وہ اپنے حقوق سے بھى دستبردار ہو جائے، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وہ جسے پسند كرنے لگے اس پر راضى ہو جائے چاہے وہ اس كے ليے مناسب نہ بھى ہو.

اس ليے آپ اپنے والدين كى رغبت و خواہش پر عمل كريں كيونكہ وہ دورى كى نظر اور رائے ركھتے ہيں، جب اس شخص كى يہ حالت ہے جو آپ نے بيان كى ہے تو پھر آپ اپنے والدين كو اس پر دوبارہ موافق ہونے كے ليے دباؤ مت ڈاليں.

چہارم:

آپ كے ليے يہ مخفى نہيں ہونا چاہيے كہ نكاح صحيح ہونے كى شرط ميں عورت كے ولى كى موافقت ہونا ضروى ہے، اس ليے اس شخص كے ساتھ دوبارہ شادى كرنا اسى صورت ميں صحيح ہو گا جب آپ كے والد كى موافقت ہوگى، اسى طرح اب وہ شخص آپ كے ليے وہ شخص پورا اجنبى ہے، اس ليے اس كے ساتھ تعلقات ركھنے كى كوئى مجال نہيں؛ كيونكہ اب آپ اس كى بيوى بن كر واپس نہيں ہو سكتى.

آپ كو چاہيے كہ آپ اس كام ميں مشغول ہوں جو آپ كے ليے فائدہ مند ہو، اور جو گزر چكا ہے اس كو مت سوچيں، حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو نيك و صالح خاوند عطا كر دے، اور كسى شخص سے بھى اس وقت تك شادى مت كريں جب تك اس كے بارہ ميں باز پرس نہ كر ليں، اور اس كے دين اور اخلاق پر مطمئن نہ ہو جائيں.

جو كچھ ہو چكا ہے وہ آپ كے ليے سبق ہونا چاہيے اور اس ميں عبرت محسوس كريں، اور آپ اللہ كا شكر ادا كريں كہ رخصتى اور دخول سے قبل ہى آپ كو اس شخص كے عيوب كا پتہ چل گيا.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو سيدھى راہ كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: اللقاء الشھری نمبر ( 17 ) ۔