منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

كيا وتروں كى دعاء واجب ہے اور اگر ياد نہ ہو تو كيا پڑھے ؟

سوال

مجھے دعائيں ياد كرنے ميں مشكل پيش آتى ہے، مثلا وتر كى دعا، ميں اس كے بدلے وتر ميں كوئى سورۃ پڑھتا كرتا تھا، ليكن جب مجھے يہ علم ہوا كہ يہ فرض ہے تو ميں نے اسے ياد كرنے كى كوشش كى اور نماز ميں كتاب سے ديكھ كر پڑھنى شروع كر دى اور يہ كتاب ميرى ايك جانب ميز پر ركھى ہوتى تھى اور ميرا رخ قبل كى طرف ہى رہتا ہے تو كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 - نماز وتر ميں وتروں كى دعاء كتاب يا ورقہ سے ديكھ كر پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں، حتى كہ آپ اسے ياد كر ليں اور ياد كرنے كے بعد اسے زبانى ہى پڑھا كريں، اسى طرح جو حافظ نہ ہو اس كے ليے نفلى نماز ميں قرآن مجيد سے ديكھ كر قرآن پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے نماز تراويح ميں قرآن مجيد ديكھ كر پڑھنے كے حكم اور كتاب و سنت ميں اس كى دليل كے متعلق دريافت كيا گيا ؟

تو ان كا جواب تھا:

رمضان المبارك كے قيام ميں قرآن مجيد ديكھ كر قرآت كرنے ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ ايسا كرنے ميں مقتديوں كو سارا قرآن سنايا جا سكتا ہے، اور اس ليے بھى كہ كتاب و سنت كے شرعى دلائل نماز ميں قرآن مجيد كى قرآت پر دلالت كرتے ہيں، اور يہ دلائل قرآت ميں عام ہے چاہے وہ قرآن مجيد ديكھ كر كى جائى يا زبانى، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ثابت ہے كہ انہوں نے اپنے غلام ذكوان كو حكم ديا كہ وہ رمضان كا قيام كروائيں اور وہ قرآن مجيد سے ديكھ كر قرآت كرتے تھے، امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے اسے تعليقا اور بالجزم روايت كيا ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 155 ).

2 - دعاء قنوت ميں يہ واجب نہيں وہ بعينہ انہى الفاظ ميں كى جائے بلكہ نماز كے ليے اس كے علاوہ دوسرے الفاظ يا اس ميں كمى و زيادتى كرنى جائز ہے، بلكہ اس نے كوئى ايسى آيت پڑھ لى جس ميں دعاء ہو تو مقصد پورا ہو جائے گا.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

آپ كو معلوم ہونا چاہيے كہ صحيح مذہب كے مطابق قنوت ميں كوئى دعا متعين نہيں، اس ليے كوئى بھى دعاء كر لى جائے تو قنوت ہو جائے گى، چاہے قرآن مجيد كى ايك يا كئى آيات پڑھ لى جائے جو دعا پر مشتمل ہو تو قنوت ہو جائے گى، ليكن افضل يہ ہے كہ وہ دعاء پڑھى جائے جو سنت ميں وارد ہے.

ديكھيں: الاذكار النوويۃ ( 50 ).

3 - اور سائل كرنے والے بھائى نے جو يہ بيان كيا ہے كہ وہ دعاء قنوت كے بدلے قرآن كى تلاوت كرتا تھا، بلاشك ايسا نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ قنوت كا مقصد دعاء ہے، اسى ليے اگر يہ آيات دعاء پر مشتمل ہو تو اس كى قرآت كر كے قنوت كرنا جائے ہے:

مثلا فرمان بارى تعالى:

ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذا هديتنا وهب لنا من لدنك رحمة إنك أنت الوهاب

اے ہمارے رب ہميں ہدايت نصيب كرنے كے بعد ہمارے دلوں ميں كجى پيدا نہ كرنا، اور اپنى جانب سے ہم پر رحمت فرما بلا شبہ تو ہى ہبہ كرنے والا ہے. آل عمران ( 8 )

4 - اور سائل كا يہ كہنا كہ قنوت فرض ہے، يہ صحيح نہيں بلكہ قنوت سنت ہے، اس ليے اگر كوئى شخص قنوت نہيں كرتا تو اس كى نماز صحيح ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

رمضان المبارك ميں رات كے قيام ميں نماز وتر ميں دعاء قنوت كرنے كا حكم كيا ہے، اور كيا اسے چھوڑنا جائز ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

نماز وتر ميں دعاء قنوت سنت ہے، اور اگر بعض اوقات نہ بھى كى جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

اور يہ بھى سوال كيا گيا:

ہر رات وتر ميں مسلسل قنوت كرنے والے كے متعلق كيا حكم ہے، اور كيا يہ سلف صالحين سے منقول ہے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

اس ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ سنت ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب حسين بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو وتر كى دعا سكھائى تو انہيں بعض اوقات ترك كرنے كا حكم نہيں ديا اور نہ ہى مسلسل كرنے كا حكم ديا، جو كہ دونوں كام كرنے كے جواز كى دليل ہے.

اور اسى ليے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ جب وہ صحابہ كرام كو مسجد نبوى ميں نماز پڑھايا كرتے تھے تو بعض اوقات اور راتوں كو وتر ميں قنوت نہيں كرتے تھے، اور ہو سكتا ہے يہ اس ليے تھا كہ لوگوں كو يہ معلوم ہو جائے كہ يہ فرض اور واجب نہيں.

اللہ تعالى ہى توفيق نصيب كرنے والا ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 159 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب