منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

زكاۃ اور صدقہ كے مابين فرق

سوال

صدقہ اور زكاۃ ميں كيا فرق ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

لغوى تعريف:

زكاۃ كى لغوى تعريف:

النماء والريع، و البركۃ، والتطھير.

نمو، اور بڑھنا اور زيادہ ہونا، بركت، اور پاكيزگى ہے.

ديكھيں: لسان العرب ( 14 / 358 ) فتح القدير ( 2 / 399 ).

صدقہ كى لغوى تعريف:

صدقہ صدق اور سچائى سے ماخوذ ہے، كيونكہ يہ صدقہ كرنے والے كے ايمان كى سچائى اور صدق كى دليل ہے.

ديكھيں: فتح القدير ( 2 / 399 ).

شرعى تعريف:

زكاۃ كى شرعى تعريف:

اللہ تعالى كى جانب سے واجب اور فرض كردہ زكاۃ شريعت كے حساب كے مطابق مستحقين كو ادا كر كے اللہ تعالى كى عبادت كا نام زكاۃ ہے.

صدقہ كى شرعى تعريف:

اللہ كے راستے ميں وہ مال خرچ كركے اللہ كى عبادت كرنا جسے شريعت نے واجب نہيں كيا، اور بعض اوقات واجب كردہ زكاۃ پر بھى صدقے كا اطلاق ہوتا ہے.

ذيل ميں صدقہ اور زكاۃ كے مابين فرق پيش كيا جاتا ہے:

1 - دين اسلام نے معين اشياء ميں زكاۃ فرض كى ہے اور وہ اشياء يہ ہيں: سونا، چاندى، غلہ اور كھيتى، پھل، تجارتى سامان، چوپائے يعنى اونٹ، گائے بكرى.

اور صدقہ كسى معين چيز ميں واجب نہيں، بلكہ اسى ميں ہے جس ميں انسان بغير كسى تحديد كے صدقہ كرلے.

2 - زكاۃ كے ليے كچھ شروط ہيں، مثلا سال كا پورا ہونا، اور نصاب مكمل ہو، اور زكاۃ كے ليے مال ميں مقدار محدد اور متعين ہے.

ليكن صدقہ ميں كوئى شرط نہيں، لہذا صدقہ كسى بھى وقت اور كسى بھى مقدار ميں كيا جاسكتا ہے.

3 - زكاۃ ميں اللہ تعالى نے واجب اور فرض كيا ہے كہ يہ معين كردہ اصناف اور قسم ميں ہى صرف كى جائے، لہذا ان كے علاوہ كسى اور جگہ پر زكاۃ صرف كرنى جائز نہيں.

اور ان اصناف اور مصارف زكاۃ كا ذكر مندرجہ ذيل فرمان بارى ميں ذكر كيا گيا ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين، اور اس پر كام كرنے والے، اور تاليف قلب ميں، اور غلام آزاد كرانے ميں، اور قرض داروں كے ليے، اور اللہ كے راستے ميں، اور مسافروں كے ليے ہے، يہ اللہ تعالى كى طرف سے فرض كردہ ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے التوبۃ ( 60 ).

ليكن صدقہ آيت ميں مذكور اقسام اور ان كے علاوہ دوسروں كو بھى دينا جائز ہے.

4 - جو شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ زكاۃ ہو تو اس كے ورثاء كو چاہيے كہ وہ اس كا مال تقسيم كرنے سے قبل زكاۃ ادا كريں، اور زكاۃ وصيت اور ورثاء پر مقدم كى جائے گى.

ليكن صدقہ ميں ايسى كوئى چيز واجب نہيں ہے.

5 - زكاۃ نہ دينے والے كو عذاب ہو گا، اس كى دليل مسلم شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو مالدار اورخزانے والا شخص مال كى زكاۃ ادا نہيں كرے گا اس كے ليے وہ مال جہنم ميں گرم كر كے اس كى پليٹيں بنا كر اس سے اس كے پہلو اور پيشانى كو داغا جائے گا، حتى كہ اللہ تعالى اپنے بندوں كے مابين اس دن فيصلہ كرے گا جس دن كى مقدار پچاس ہزار برس ہے، پھر وہ اپنا راستہ ديكھے گا يا تو جنت كى طرف يا پھر جہنم كى طرف، اور جو اونٹوں والا بھى ان كى زكاۃ ادا نہيں كرتا، اس كے ليے بالكل صاف اور برابر وسيع زمين بچھائى جائے گى جس پر وہ اونٹ جب بھى چليں گے اس مالك كو اپنے پاؤں اور ٹانگوں سے اسے رونديں گے، جب آخرى اونٹ گزر جائےگا تو پہلا پھر واپس پلٹا ديا جائے گا، حتى كہ اللہ تعالى اس دن جو پچاس ہزار سال كا ہے اپنے بندوں كے مابين فيصلہ كردے، پھر وہ اپنا راستہ ديكھ لے گا يا تو جنت كى طرف يا پھر جہنم كى طرف.

اور جو بكريوں والا بھى ان كى زكاۃ ادا نہ كرتا ہو تو اس كے ليے وسيع اور صاف اور برابر زمين بچھائى جائے گى تو وہ بكرياں اسے اپنے پاؤں اور كھروں كے ساتھ اسے رونديں گى اور اپنے سينگوں كے ساتھ ٹكريں ماريں گى ان ميں نہ تو كوئى بكرى مڑے ہوئے سينگوں والى ہو گى اور نہ ہى بغير سينگوں كے، جب بھى اس ميں سے آخرى بكرى گزر جائے گى تو پہلى كو واپس لايا جائے گا، حتى كہ اللہ تعالى اس دن جو پچاس ہزار برس كا ہے جسے تم شمار كرتے ہو ميں اپنے بندوں كے مابين فيصلہ كر دے، پھر وہ اپنا راستہ ديكھ لے گا يا تو جنت كى طرف يا تو جہنم كى طرف.... "

ليكن صدقہ نہ كرنے والے كو عذاب نہيں ديا جائے گا.

6 - مذاہب اربعہ كے نزديك زكاۃ نہ تو اصل اور نہ ہى فرع يعنى ماں، باپ، اور دادے نانے، اوردادياں نانياں، اور فروع جو كہ اولاد اور پوتے پوتيوں كو دينى جائز نہيں ہے.

ليكن صدقہ اصل اور فرع يعنى والد اور بيٹے وغيرہ كو دينا جائز ہے.

7 - مالدار اور كمائى كرنے والے قوى شخص كو زكاۃ دينى جائز نہيں.

عبيد اللہ بن عدى بيان كرتے ہيں كہ مجھے دو آدميوں نے بتايا كہ وہ حجۃ الوداع كے موقع پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صدقہ تقسيم كر رہے تھے، تو انہوں نے بھى طلب كيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نظر اٹھائى اور نيچى كرلى، اور ہميں ديكھا كہ ہم طاقتور اور قوى ہيں تو فرمانے لگے:

" اگر تم چاہو تو ميں تمہيں دے ديتا ہوں، اور اس صدقہ ميں نہ تو مالدار اور غنى كے ليے حق ہے اور نہ ہى كمائى كى طاقت ركھنے والے قوى شخص كا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1633 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 2598 ) اس حديث كو امام احمد رحمہ اللہ وغيرہ نے صحيح قرار ديا ہے.

ديكھيں: تلخيص الحبير ( 3 / 108 ).

ليكن صدقہ غنى اور كمائى كى طاقت ركھنے والے قوى شخص كو بھى دينا جائز ہے.

8 - زكاۃ ميں افضل يہ ہے كہ اسى علاقے اور شہر و ملك كے غنى اور مالدار لوگوں سے حاصل كر كے وہاں كے فقراء ميں ہى تقسيم كى جائے، بلكہ اكثر اہل علم تو يہ كہتے ہيں كہ كسى مصلحت اور ضرورت كے بغير كسى دوسرے علاقے ميں زكاۃ منتقل كرنى جائز نہيں ہے.

ليكن صدقہ قريب اور بعيد دونوں كو ديا جا سكتا ہے.

9 - كفار اور مشركين كو زكاۃ دينى جائز نہيں ہے.

ليكن صدقہ كفار اور مشركين كو دينا جائز ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور وہ اللہ تعالى كى محبت ميں مسكين اور يتيم اور قيدي كو كھانا كھلاتے ہيں الانسان ( 8 ).

قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور دار الاسلام ميں مشرك كے علاوہ كوئى اور قيدى نہيں ہو سكتا.

10 - مسلمان شخص كے ليے بيوى كو زكاۃ دينى جائز نہيں ہے، ابن منذر رحمہ اللہ تعالى نے اس پر اجماع نقل كيا ہے.

ليكن صدقہ بيوى كو ديا جا سكتا ہے.

زكاۃ اور صدقہ كے مابين كچھ فرق يہ ہيں جو ہم نے مندرجہ بالا سطور ميں ذكر كيے ہيں.

اور نيكى وبھلائى كے سب كام كا صدقہ پر اطلاق ہوتا ہے، امام بخارى رحمہ اللہ تعالى صحيح بخارى ميں باب كا عنوان ركھا ہے:

ہر معروف اور نيكى صدقہ ہے. اور پھر اپنى سند كے ساتھ مندرجہ ذيل حديث روايت كى ہے:

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ہر معروف اور نيكى صدقہ ہے"

ابن بطال رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

حديث اس پر دلالت كرتى ہے كہ آدمى جو خير و بھلائى كا فعل كرتا ہے يا كوئى بات كرتا ہے اس كے ليے اس كے بدلے ميں صدقہ لكھا جاتا ہے.

اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " ہر نيكى و بھلائى صدقہ ہے"

يعنى اجر وثواب ميں اس كا حكم صدقے كا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب