الحمد للہ.
اگرخاوند بیوی کے شرعی حقوق کی ادائیگی کرتا ہے توبیوی کاخاوند سے طلاق کا مطالبہ حرام ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جوعورت بھی بغیر کسی وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرے تواس پر جنت کی خوشبو تک حرام ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1187 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2055 ) اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی لے اس حدیث کو صحیح ابوداود میں صحی قرار دیا ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( بغیرکسی سبب کے ) کا معنی یہ ہے کہ کسی ایسی سختی اورتکلیف کے بغیر جوطلاق تک لے جاۓ ۔
اورجب بیوی مجبور ہوجاۓ اورخاونداس کے حقوق میں سستی کرتےہوۓ حقو ق کی ادائيگی نہ کرے یا پھر اس کا اخلاق صحیح نہ ہو اس کے علاوہ دوسرے اسباب بھی ہوں توبیوی طلاق طلب کرسکتی ہے اوراپنا معاملہ عدالت میں قاضی کے پاس لےجاۓ اورساری وضاحت کرے ، اورقاضی یا تو خاوند سے حقوق کی ادائيگی کرواۓ یا پھر اسے طلاق دینے کا کہے ۔
اوراگرخاوند میں اخلاق قبیحہ کا انکشاف ہوتوفوری طور پر طلاق کا مطالبہ نہيں کرنا چاہیے بلکہ بیوی کوچاہیے کہ وہ اسے محبت کرتے ہوۓ اچھے انداز سے نصیحت کرے ، اوراس کے برے اخلاق کواخلاق حسنہ کے ساتھ بدلنے میں مدد وتعاون کرے ۔
اورپھر خاوند تواعتراف کرتا ہے کہ وہ غلط ہے اوراپنی اصلاح کرنے کا وعدہ بھی کررہا ہے جو کہ خاوند کی جانب سے ایجابی قدم ہے اوراپنی غلطیوں کی اصلاح کے لیے پہلا قدم ہے ، لھذا عورت کواس سلسلے میں اپنے خاوند کا بھلائی اورخیر پرمعین و مدد گار ہونا چاہيۓ ۔
اوراگر ہرعورت اپنے خاوند کے جلدغصہ میں آنے یا پھر آپس کی باتوں کودوسروں کے سامنے بیان کرنے یا اس طرح کی کسی اور غلطی اور وجہ سے طلاق کا مطالبہ کرنا شروع کردے توپھر کوئي بھی گھر علیحدگی سے نہ بچ سکے اوران کی اولاد بھی ٹھوکریں کھاتی پھرے ۔