الحمد للہ.
اپنے محتاج اور ضرورتمند رشتہ داروں كو زكاۃ اور صدقہ و خيرات دينا غير رشتہ دار كو دينے سے افضل ہے؛ كيونكہ قريبى رشتہ دار پر صدقہ كرنا ايك تو صدقہ ہے اور دوسرا صلہ رحمى، ليكن اگر يہ رشتہ دار ايسے افراد ميں شامل ہوتے ہوں جن كا خرچ آپ كے ذمہ ہے تو پھر انہيں زكاۃ دينى جائز نہيں۔
آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 20278 ) كے جواب كا مطالعہ كريں۔
اور آپ كے بھائى كا خرچہ آپ كے والد كے ذمہ واجب ہے، اور اگر آپ كے والد صاحب اس پر خرچ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتے تو آپ اسے اپنی زکاۃ دے سکتے ہیں۔
دائمی فتوى كميٹى كے علمائے كرام سے پوچھا گیا:
اول:
ميرے والد رحمہ اللہ فوت ہو چكے ہيں، اور اپنے پیچھے سات افراد پر مشتمل خاندان چھوڑا ہے، جن ميں ميرى والدہ كے علاوہ والد صاحب كى دوسرى بيوى بھى شامل ہے، اور ان سب كے ليے اللہ تعالى كے بعد ميرے علاوہ كوئى بھى كمانے والا نہيں ہے، تو كيا ميں ان پر خرچ كرنے والى رقم كو اپنے مال كى شرعى زكاۃ شمار كر سكتا ہوں ـ يہ علم ميں رہے كہ ميں شادى شدہ ہوں اور میرا اپنا خاندان بھی ہے جسکی کفالت میں ہی کرتا ہوں- ؟
دوم:
ميرا ايك بڑا بھائى شادى شدہ ہے اور اس كى دو بيوياں اور بہت زيادہ بچے ہيں، اور وہ ان سب پر خرچ كرنے ميں اكيلا كافى نہيں جس كى بنا پر مجھ سے تعاون كرنے كا بہت زيادہ مطالبہ كرتا رہتا ہے، تو كيا اسے دى جانے والى رقم كو زكاۃ شمار كر سكتا ہوں؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
"والد كى جانب سے بہن بھائى اگر محتاج اور فقير ہيں اور ان كے پاس اپنے خرچہ كے ليے مال كافى نہيں تو انہيں زكاۃ دينے ميں كوئى مانع نہيں، اور اسى طرح آپ اپنے بڑے بھائى كو بھى زكاۃ دسے سكتے ہيں اگر وہ فقير اور محتاج ہے اس كے پاس مال نہيں يا وہ اتنى كمائى نہيں كر سكتا جس سے وہ زكاۃ سے مستغنى ہو، اس كى دليل صدقات و زكاۃ كى آيت کا عموم ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين، اور اس پر كام كرنے والے، اور تاليف قلب ميں، اور غلام آزاد كرانے ميں، اور قرض داروں كے ليے، اور اللہ كے راستے ميں، اور مسافروں كے ليے ہے، يہ اللہ تعالى كى طرف سے فرض كردہ ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے ۔ التوبۃ/ 60"
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 57 - 58 )
اور ايك دوسرے فتوى ميں ان كا كہنا ہے:
"اگر ان کی آمدنی گزرانِ زندگى كے ليے كافى نہيں تو آپ اپنے سگے بھائى اور سسر كو زكاۃ دے سکتے ہیں"
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 59 )
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
"آپ كا يہ سوال كہ اگر آپ كا سگا بھائى يا بہن ہو تو كيا اسے زكاۃ دينا جائز ہے ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ: اگر تو آپ كے زكاۃ دينے كى وجہ سے آپ پر واجب كردہ چيز ساقط ہوتى ہو مثلا اس كا نفقہ آپ پر واجب ہے، اور آپ اسے زكاۃ ديں تا كہ اس پر خرچ کرنے سے اپنا مال بچا سكيں تو يہ جائز نہيں؛ كيونكہ زكاۃ مال كے بچاؤ کا ذریعہ نہيں ہو سكتى، اور اگر آپ كے زكاۃ دينے سے واجب كردہ چيز ساقط نہيں ہوتى مثلا آپ كے ذمہ اس كا خرچہ واجب ہی نہيں تھا، كيونكہ آپ اس كے وارث نہيں يا يہ كہ اپنے خاندان كے ساتھ آپ اس پر بھى خرچ كرنے كے متحمل نہيں ہو سكتے، يا وہ قرض كى ادائيگى كى استطاعت نہيں ركھتا تو اس قرض كو ادا كرنے كے ليے آپ ديں تو آپ اسے اپنى زكاۃ دے سکتے ہیں، بلكہ يہ كسى دوسرے كو دينے سے افضل اور بہتر ہے؛ كيونكہ اسے دينا ايك تو صدقہ اور دوسرا صلہ رحمى ہے۔
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 422 - 423 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 21810 ) اور ( 11492 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں۔
واللہ اعلم .