"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے توبہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور گناہ چھوڑ دیا، میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ دوبارہ وہ گناہ نہیں کرنا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرے دل میں کوئی ندامت پیدا نہیں ہوئی، یہ کیسے دل میں پیدا ہو گی؟ کیونکہ اسے پیدا کرنا بہت مشکل ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ندامت کوئی عملی کام نہیں ہے ، نہ ہی یہ مکلف شخص کے بس کی بات ہے؛ کیونکہ ندامت کا تعلق جذبات سے ہے عمل سے نہیں اور جذبات انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے۔ تو ایسے میں ندامت کو ضروری کیوں قرار دیا گیا حالانکہ ندامت مکلف کے اختیار میں ہی نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی عملی کام ہے؟ اور کیا میں اللہ سے دعا کروں کہ اللہ تعالی میرے دل میں ندامت ڈال دے؟
الحمد للہ.
صحیح توبہ کی شرائط یہ ہیں:
اور اگر توبہ کا تعلق مالی، جانی یا عزت سے تعلق رکھنے والے حقوق العباد کی پامالی سے ہو تو پھر ایک چوتھی شرط بھی لاگو ہو جاتی ہے کہ: مظلوم شخص سے معافی مانگی جائے یا مظلوم کو اس کا پورا حق دے دیا جائے۔
توبہ کی حقیقت اور توبہ کی شرائط جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (13990) اور اسی طرح : (182767) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
ندامت اور پشیمانی توبہ کی بنیادی شرط ہے، بلکہ یہ توبہ کا سب سے بڑا رکن ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ندامت توبہ ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
بلکہ بعض اہل علم نے تو یہ بھی کہا ہے کہ:
"توبہ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ندامت پیدا ہو جائے؛ کیونکہ ندامت کے نتیجے میں گناہ سے باز رہنا پڑے گا، اور دوبارہ گناہ میں ملوث نہ ہونے کا پختہ عزم کرنا ہو گا؛ لہذا یہ دونوں چیزیں ندامت کا نتیجہ ہیں، نہ کہ ندامت کے ہم پلہ "
دیکھیں: فتح الباری: (13/471)
اسی طرح ملا علی القاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : (ندامت توبہ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ ندامت پر ہی توبہ کے دیگر ارکان مرتب ہوتے ہیں مثلاً: گناہ سے دور ہو جانا، آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرنا، اور حسب توفیق حقوق کی ادائیگی کرنا۔۔۔ اور کسی گناہ کے سر زد ہونے پر ندامت یہی ہے کہ آپ یہ افسوس کریں کہ آپ سے گناہ سر زد ہو گیا ہے۔" ختم شد
"مرقاة المفاتيح" (4/ 1637)
اور ندامت کے لیے عربی زبان میں استعمال ہونے والے لفظ: "الندم" کا معنی دکھ یا سخت دکھ ہے، جیسے کہ لسان العرب (1/79) ، (6/4386) میں ندامت کا معنی افسوس بیان کیا گیا اور پھر افسوس کی شدید دکھ اور غم سے وضاحت کی ہے۔
جبکہ ملا علی القاری رحمہ اللہ کی سابقہ گفتگو نے ندامت کو بہ ایں الفاظ واضح کیا کہ: " گناہ کے سر زد ہونے پر ندامت یہی ہے کہ آپ یہ افسوس کریں کہ آپ سے گناہ سر زد ہو گیا ہے"
یعنی مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ ہو جانے کے بعد دکھ اور افسوس میں پڑ جاتا ہے کہ اس سے یہ گناہ سر زد ہو گیا ہے تو اس نے توبہ میں مقصود ندامت حاصل کر لی ہے۔
چنانچہ اگر یہ ندامت سچی ہوئی تو یہ گناہ گار جلد ہی گناہ سے باز آ جائے گا، اور آئندہ کبھی نہ کرنے کا عزم کرے گا، اس طرح سے توبہ بھی مکمل ہو جاتی ہے اور توبہ کی شرائط بھی پوری ہو جاتی ہیں۔
اس بنا پر : جو شخص بھی کسی گناہ کو اس لیے چھوڑ دیتا ہے کہ یہ اللہ کی نافرمانی کا کام ہے -یعنی اللہ سے ڈر کر اور اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے- اور دوبارہ اس میں ملوث ہونے کو پسند نہیں کرتا ، اس گناہ کے ذریعے اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا، بلکہ دل میں یہ تمنا رکھتا ہے کہ کاش اس گناہ کی جگہ اللہ کے لیے نیکی کر لی ہوتی، پھر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم کرے تو یقینی طور پر اس نے ندامت حاصل کر لی ہے، در حقیقت اسی ندامت نے ہی اسے گناہ چھوڑنے پر آمادہ کیا ۔
غزالی رحمہ اللہ "إحياء علوم الدين" (4/4) میں کہتے ہیں کہ:
"ذہن نشین کر لیں کہ: توبہ در حقیقت تین سلسلہ وار مرتب چیزوں کا نام ہے: علم، حال، اور عمل۔
اس میں علم سب سے پہلے ہے ، دوسرے نمبر پر حال اور تیسرے نمبر پر عمل ہے۔
پھر سب سے پہلی چیز یعنی علم لازمی طور پر دوسری چیز کا موجب بنتا ہے اور دوسری چیز لازمی طور پر تیسری چیز کی موجب بنتی ہے۔ یہ تسلسل اللہ تعالی کے قانون فطرت کا تقاضا ہے۔
توبہ کے مسئلے میں علم یہ ہے کہ: انسان کو گناہ کے سنگین نتائج کا علم ہو، انسان کو علم ہو کہ گناہ بندے اور ہر محبوب کے مابین حجاب ہے۔
جب بندے کو اس چیز کی حقیقی معرفت اس طرح حاصل ہو جائے کہ یقین بن کر دل پر غالب ہو تو اس کے نتیجے میں قلبی طور پر ایک دکھ پیدا ہوتا ہے کہ محبوب مجھ سے روٹھ جائے گا، تو دل کو جس وقت بھی محبوب کے روٹھ جانے کا خیال آتا ہے دل میں دکھ اور درد پیدا ہوتا ہے، بلکہ اگر محبوب روٹھ جانے کا سبب انسان کا اپنا عمل ہی ہو تو پھر اس کام پر اسے بہت زیادہ افسوس ہوتا ہے، اور محبوب کے روٹھ جانے کے خدشے پر جو افسوس دل میں پیدا ہوتا ہے اسی کو ندامت کہتے ہیں۔
جس وقت یہ درد قلب پر مکمل قابض ہو جائے تو دل میں ایک اور کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے ارادہ اور قصد کہتے ہیں اور اس ارادے کا تعلق حال، ماضی اور مستقبل کے ساتھ ہوتا ہے۔
حال کے ساتھ تعلق اس طرح کہ اگر گناہ میں ملوث ہے تو فوری طور پر گناہ سے دور ہو جائے۔
مستقبل کے ساتھ اس طرح کہ آئندہ تا حیات محبوب گنوا دینے کا سبب بننے والے گناہ کے قریب نہ جانے کا عزم کرے۔
اور ماضی کے ساتھ اس طرح کہ جو کچھ ہوا اس کی معافی تلافی کر لے اور اگر اس کا تدارک ممکن ہے تو تدارک کر لے۔۔۔۔
اس لیے علم، ندامت اور ماضی، حال، اور استقبال سے متعلق ارادہ یہ سب چیزیں سلسلہ وار ہیں اور اسی ترتیب سے حاصل ہوتی ہیں، اور ان سب چیزوں کے مجموعے پر توبہ کا نام بولا جاتا ہے۔
کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ [ان تینوں ارکان میں سے]توبہ کا لفظ صرف ندامت پر ہی بول کر علم کو بطور دیباچہ یا مقدمہ کے رکھا جاتا ہے، جبکہ ارادے کو نتیجے اور اثرات کے مرتبے میں رکھ دیا جاتا ہے، چنانچہ اسی اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (ندامت توبہ ہے) کیونکہ علم کے بغیر ندامت ہو ہی نہیں سکتی، اسی طرح ندامت کے بعد اس کے اثرات اور نتائج بھی لا محالہ پیدا ہونے ہیں، اس طرح ندامت ہر اعتبار سے اہم ٹھہرتی ہے، یعنی علم اور ارادہ دونوں سے" ختم شد
اسی طرح (3/144) پر لکھتے ہیں کہ:
"اگر ماضی میں کیے ہوئے کسی کام کی وجہ سے خوف پیدا ہو تو اس سے ندامت جنم لیتی ہے، اور ندامت سے ارادہ پیدا ہوتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ندامت توبہ ہے)" ختم شد
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا گناہ چھوڑ دینا اور آئندہ گناہ نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے دل میں ندامت پیدا ہو چکی ہے۔
اس لیے اس قسم کے شیطانی وسوسوں کی جانب آپ توجہ نہ دیں ، ان وسوسوں کے ذریعے شیطان یہ چاہتا ہے کہ آپ کو عدم تائب ہونے کا وہم دلائے، یا یہ کہ توبہ ممکن ہی نہیں ہے، یا یہ کہ آپ میں توبہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، اس طرح شیطان آپ کو مایوسی اور قنوط میں ڈال دے گا اور آپ یہ سمجھنے لگیں گے کہ آپ کے لیے توبہ کا دروازہ ہی بند ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کو شیطان مردود سے پناہ میں رکھے اور ہم سب کو سچی توبہ کرنے کی توفیق سے نوازے۔
واللہ اعلم