جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

فضائل اعمال حقوق العباد كا كفارہ نہيں بنتے

65649

تاریخ اشاعت : 25-12-2005

مشاہدات : 14088

سوال

ميں نے سنا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" جس نے رمضان المبارك كے روزے ايمان اور اجروثواب كى نيت سے ركھے اس كے پہلےسارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں"
كيا اس ميں مسلمان شخص كے وہ گناہ بھى شامل ہيں جو اس نے اپنے مسلمان بھائى كے حقوق كو جان بوجھ كر غصب كيا ہے، اور اب اس پر بہت زيادہ نادم ہے، ليكن وہ ان كے سامنے ان كا اعتراف كرنے كى استطاعت نہيں ركھتا، كيونكہ اس سے بہت سارى مشكلات پيدا ہونگى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

گناہوں كو ختم اور ان كا كفارہ بننے والى اشياء تو بہت سارى ہيں: جن ميں توبہ و استغفار ، اور اطاعت و فرمانبردارى، اور حد والے گناہ كا مرتكب ہونے والے پر حد كا قائم كرنا، وغيرہ ذالك.

اور فضائل اعمال مثلا نماز، روزہ، حج وغيرہ جمہور علماء كرام كے ہاں يہ اعمال تو صرف صغيرہ گناہوں كا كفارہ بنتے ہيں، اور اللہ تعالى كے حقوق اللہ كا كفارہ بنتے ہيں.

اور حقوق العباد كے متعلقہ معاصى اور حقوق كے بارہ ميں گزارش يہ ہے كہ: يہ توبہ كے بغير معاف نہيں ہوتے، اور اس سے توبہ كى شروط ميں حقوق كا حقداروں كو واپس كرنا شامل ہے.

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہم سے روايت كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" شھيد كو قرض كے علاوہ باقى سب گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1886 ).

شرح مسلم ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان: " قرض كے علاوہ "

اس ميں اس بات كى تنبيہ ہے كہ آدميوں كے سارے حقوق كو شھادت اور جھاد اور دوسرے فضيلت والے اعمال معاف نہيں كرواتے اور ان كا كفارہ نہيں بنتے، بلكہ حقوق اللہ كا كفارہ بنتے ہيں. انتہى

اور ابن مفلح " الفروع " ميں كہتے ہيں:

اور شھادت قرض كے علاوہ گناہ معاف كرواتى ہے، ہمارے شيخ كہتے ہيں ( يعنى شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى ) اور قرض كے علاوہ بندوں كے دوسرے حقوق مثلا قتل اور ظلم وغيرہ بھى. انتہى

ديكھيں: الفروع ( 6 / 193 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:

" توبہ ندامت كے معنى ميں ہے كہ جو كچھ ہو چكا اس پر ندامت اور آئندہ ايسا فعل نہ كرنے كے عزم كا نام توبہ ہے، اور يہ حقوق العباد كو ساقط كرنے كے ليے كافى نہيں، لھذا جس شخص نے كسى كا مال چورى كيا، يا مال غصب كيا، يا كسى اور طريقہ سے اس كے ساتھ ظلم اور زيادتى كى تو صرف ندامت اور اس فعل كو چھوڑ دينے اور آئندہ ايسا نہ كرنے كا عزم كرنے سے ہى اس گناہ سے چھٹكارا حاصل نہيں ہوگا، بلكہ ان مظلوموں كے حقوق واپس كرنا ضرورى ہيں، اور فقھاء كے ہاں يہى اصل اور متفق عليہ مسئلہ ہے" انتہى.

يہ تو ان حقوق كے متعلق تھا جو مادى ہيں، مثلا غصب كردہ مال، يا حيلہ وغيرہ كر كے حاصل كردہ، ليكن معنوى حقوق مثلا بہتان، غيبت، وغيرہ ہوں تو اس سلسلے ميں گزارش ہے كہ اگر مظلوم كو اس ظلم كا علم ہو چكا ہو تو مظلوم سے معذرت اور معافى ضرور مانگنا ہو گى، اور اگر مظلوم كے علم ميں يہ ظلم نہ آيا ہو تو اسے بتانا نہيں چاہيے بلكہ اس كے ليے اس كے ليے استغفار كرے، كيونكہ اسے بتانا نفرت كا سبب اور باعث بنے گا اور ان دونوں كے مابين عداوت و دشمنى اور بغض پيدا ہو گا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" صحيح حديث ميں ہے كہ:

" جس كسى كے پاس بھى اپنے كسى بھائى كا خون ميں يا مال ميں عزت ميں حق ہے تو وہ اس حق سے وہ دن آنے سے قبل ہى برى ہو جائے اور اسے ادا كردے، جس دن ميں نہ كوئى درہم ہو گا اور نہ دينار، صرف نيكياں اور برائياں ہونگى، اگر اس كے پاس نيكياں ہونگى تو صحيح وگرنہ صاحب حق كى برائياں لے كر ظالم پر ڈال دى جائيں گى اور پھر اسے جہنم ميں ڈال ديا جائے گا" او كما قال.

اور يہ تو اس كے متعلق ہے جس كا مظلوم كو علم ہو چكا ہو، ليكن اگر اس نے كسى كى غيبت كى ہو، يا اس پر بہتان لگايا ہو اور مظلوم كو اس كا علم نہ ہو تو اس سے توبہ كى شرط ميں ايك قول يہ ہے كہ اس كے علم ميں لايا جائے، اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: يہ شرط نہيں.

يہ اكثر كا قول ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے دو روايتيں ہيں، ليكن اس كا قول اس طرح كے مسئلہ ميں يہ ہے كہ اس مظلوم كے ساتھ نيكى كرے مثلا اس كے ليے دعا اور استغفار اور اعمال صالحہ صدقہ كركے اس كا ثواب اسے ہديہ كرے، جو اس كى غيبت اور بہتان كے قائم مقام ہونگے.

حسن بصرى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

غيبت كا كفارہ يہ ہے كہ جس كى غيبت كى ہے اس كے ليے آپ استغفار كى دعا كريں. انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 18 / 189 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے ايسے شخص كے بارہ ميں كہا ہے جس نے كسى بندے كا مال چور كيا ہو:

اگر تو اسے اس آدمى كا علم ہو يا پھر وہ اسے جاننے والے شخص كو جانتا ہو، تو اس شخص پر متعين ہے كہ وہ اسے نقدى يا چاندى يا اس كے برابر قيمت يا جس پر اس كے ساتھ اتفاق ہو جائے اسے ادا كرے.

اور اگر وہ اس شخص كو نہيں جانتا، اور اسے كے حصول سے بھى نااميد ہو چكا ہے تو پھر اس كى جانب سے وہ نقدى وغيرہ يا چاندى صدقہ كردے، اور اگر اسے صدقہ كرنے كے بعد مالك كا علم ہو جائے تو اسے صدقہ كرنے كى خبر دے، اگر تو وہ اس كى اجازت دے تو ٹھيك، ليكن اگر وہ اس كے تصرف ميں اعتراض كرتا ہوا اپنى رقم اور حق كا مطالبہ كرے تو وہ اسے واپس كرنے كا ضامن ہے، اور كيا ہوا صدقہ اس كى اپنى جانب سے ہو گا، اور اسے چاہيے كہ وہ اللہ تعالى سے استغفار اور توبہ كرے، اور مالك كے ليے دعا كرے"

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 165 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب