"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اگر كوئى شخص كسى عورت سے محبت كرتا ہو اور رمضان المبارك ميں اس سے شادى كرنا چاہے، اور وہ اس سے بات چيت كرنا چاہتا ہے، كيا اسلام ميں كوئى ايسى قيود ہيں جو اس لڑكى سے شادى كرنے ميں مانع ہوں اور رمضان المبارك ميں اس سے بات چيت كرنے سے روكتى ہوں، آدمى اس لڑكى سے بہت زيادہ محبت كرتا ہے، اور اس سے شادى كرنا چاہتا ہے گزارش ہے كہ اس سلسلے ميں مجھے كوئى نصيحت فرمائيں ؟
الحمد للہ.
رمضان المبارك ميں شادى كرنے سے شريعت منع نہيں كرتى اور نہ ہى كسى اور مہينہ ميں ممنوع ہے، بلكہ سال كے كسى بھى دن ميں شادى كرنا جائز ہے.
ليكن رمضان المبارك ميں روزے دار طلوع فجر سے غروب شمس تك كھانے پينے اور جماع سے اجتناب كرتا ہے، چنانچہ اگر وہ اپنے آپ پر كنٹرول ركھتا ہو اور اسے يہ خدشہ نہ ہو كہ وہ كوئى ايسا عمل كر بيٹھے گا جس سے روزہ فاسد ہو تو رمضان المبارك ميں شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ جو شخص اپنى خانگى زندگى كى ابتدا رمضان المبارك ميں كرنا چاہتا ہے ـ غالبا ـ وہ اپنى نئى بيوى سے سارا دن صبر نہيں كر سكتا، اس ليے خدشہ ہے كہ وہ ممنوع فعل ميں پڑ جائيگا، اور اس ماہ مبارك كى حرمت پامال كر بيٹھےگا، تو اس طرح اس سے كبيرہ گناہ كا ارتكاب ہوگا اور اس كے ساتھ ساتھ اس پر روزے كى قضاء اور مغلظ كفارہ بھى ادا كرنا ہو گا جو كہ ايك غلام كى آزادى ہے، اور اگر اس كى استطاعت نہ ہو تو دو ماہ كے مسلسل روزے ركھنا ہونگے، اور اس كى بھى استطاعت نہ ہو تو پھر ساٹھ مساكين كو كھانا دينا ہوگا.
اور اگر كئى دنوں ميں جماع كا تكرار ہو تو پھر اسى طرح دنوں كے حساب سے كفارہ بھى مكرر ادا كرنا ہوگا، جتنے دن جماع كيا اتنى تعداد سے كفارہ واجب ہوتا ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 1672 ) اور ( 22960 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
چنانچہ سائل كے ليے نصيحت يہ ہے كہ اگر اسے خدشہ ہے كہ وہ اپنے آپ پر كنٹرول نہيں كر سكتا تو پھر شادى رمضان المبارك كے فورا بعد كر لے اور رمضان المبارك ميں اپنے آپ كو عبادت اور تلاوت قرآن اور قيام الليل وغيرہ دوسرى عبادت ميں مشغول ركھے.
اور جس لڑكى سے رمضان المبارك ميں شادى كرنا چاہتا ہے اس سے بات چيت كے متعلق حكم سوال نمبر ( 13791 ) اور ( 13918 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكا ہے، اس كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .