جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

منگنی کرنے سے پہلے لڑکی سے بات چیت کرنا چاہتا ہے

13791

تاریخ اشاعت : 01-01-2004

مشاہدات : 25010

سوال

میں اس وقت ایک برطانوی یونیورسٹی میں زير تعلیم ہوں ، یونیورسٹی میں ایک لڑکی نے مجھے اپنے آپ پر فریفتہ کرلیا ہے ، میری اس سے مطلق طور پر کبھی بات نہیں ہوئی ، اورنہ ہی عورتوں سے کلام کرنا میری عادت ہی ہے ، لیکن اتنا ہے کہ کبھی کبھی ہم آپس میں سلام کا تبادلہ کرتے ہیں ۔
میرا اس سے شادی کا پیغام کس طرح ممکن ہے ، مسئلہ یہ ہے کہ میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتا ہوں اورعورتوں سے بات چیت نہیں کرتا ، لھذا اس کے لیے سب سے افضل طریقہ کیا ہے ؟
کیا میں اس کے پاس جا کراس سے بات چیت کروں اورپہلے اس سے تعارف کی کوشش کروں جس میں شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے ، یا کہ اس سے سیدھے ہی شادی کی بات کی جائے ؟ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے اس سے بغیرکسی تعارف کے پہلے ہی شادی کی بات کروں تو وہ فورا انکار ہی نہ کردے کیونکہ وہ مجھے اچھی طرح نہيں جانتی ، اوراس لیے بھی کہ اس کی ثقافت اورمعاشرہ میرے معاشرے اورثقافت کے علاوہ ہے ، اوراس کے مقابلہ میں میں اس سے تعارف کرنے کے لیے بات چيت سے بھی خوفزدہ ہوں کہ کہيں میرا ایسا کرنا خلاف اسلام نہ ہو ۔
میں بہت ہی مشکل حالت میں ہوں میرے لیے سب سے افضل عمل کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی آپ کوصحیح کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ اجنبی عورت سے بات چيت کرنے کے کچھ شرعیت اسلامیہ نے ضوابط اورقانون وضع کیے ہیں اورکچھ اہم قسم کی شروط رکھی ہیں اگریہ ضوابط اورشروط پائي جائيں تو پھر اجنبی عورت سے کلام کرنا جائز ہے ، ایسا کرنے کا مقصد اورغرض یہ ہے کہ فتنہ اورفساد کا سد باب ہوسکے اورمعصیت میں پڑنے سے روکا جاسکے ۔

ذیل میں ہم ان شروط کا ذکر کرتے ہیں :

1 - یہ کلام خلوت کے بغیر ہو ۔

2 - یہ کلام مباح اورجائز موضوع سے خارج نہ ہو ۔

3 - فتنہ کا خدشہ نہ ہو ، اگرکلام کی وجہ سے اس کی شہوت انگیخت ہو یا پھر وہ کلام سے لذت حاصل کرنے لگے تو یہ کلام کرنی حرام ہوگی ۔

4 - نہ یہ کہ عورت کی طرف سے کلام میں نرم لہجہ اختیار ہو ۔

5 - عورت مکمل پردہ اورشرم و حیاء کی پیکر بن کررہے ، یا پھر دروازے اورپردے کے پیچھے سے مخاطب ہو ، بہتر اوراحسن تو یہ ہے کہ ٹیلی فون کے ذریعہ ہو اوراس سے بھی بہتر اوراچھا یہ ہے کہ لیٹر لکھ کر یا پھر ای میل کے ذریعہ ہو ۔

6 - یہ کلام ضرورت سے زيادہ نہ ہو بلکہ حسب ضرورت ہی رہے ۔

جب یہ شرطیں پائي جائيں اورفتنے کا بھی خدشہ نہ ہو تو پھر بات کرنے میں کوئي حرج والی بات نہیں ۔ واللہ تعالی اعلم ۔

شيخ صالح الفوزان نے لڑکے اور لڑکیوں کی ٹیلی فون پر ایک دوسرے سے بات چيت کے حکم کا جواب دیتے ہوئے کہا :

نوجوانوں کی لڑکیوں سے بات چیت کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں فتنہ ہے ، لیکن اگر لڑکی اپنے منگیتر سے بات چیت کرے اورکلام بھی صرف منگنی کی مصلحت کوسمجنے سمجھانے کی ہو تو پھر کوئي حرج نہیں لیکن افضل اور اولی اورحتیاط تو یہی ہے کہ لڑکی کے ولی سے بات کی جائے ۔

دیکھیں کتاب : المنتقی من فتاوی الشيخ صالح الفوزان ( 3 / 163 - 164 )

اورآپ نے تو ابھی اس لڑکی سے منگنی بھی نہیں کی اس لیے آپ پر ضروری ہے کہ آپ فتنہ میں پڑنے والے اسباب سے بچ کررہیں اورانتہائي شدید قسم کی احتیاط کریں اوراپنے مقصد کو ہر اس طریقے سے حل کریں جو اس لڑکی کے قریب جانے کے علاوہ ہو ۔

اس مسئلہ میں دلیل مندرجہ ذیل دو آیتیں ہیں :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہيز گاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئي برا خیال کرے ، اورہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو الاحزاب ( 32 ) ۔

اوردوسری جگہ پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

اورجب تم نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں سے کوئي چيز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو یہ تمہارے اوران کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی و طہارت ہے الاحزاب ( 53 ) ۔

اس کے بعد میں چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ یاد دلاتا چلوں کہ بیوی اختیار کرتے ہوئے مسلمان کا معیاروہ ہونا چاہیے جس کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ اوررغبت دلائي ہے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تم دین والی لڑکی اختیار کرو تمہارے ہاتھ خاک میں مليں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5090 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1466 ) ۔

آخر میں میں آپ سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ آپ ہر اس چيز سے بچ کراوراس سے دوررہيں جو آپ کوحرام میں لے جائے یا حرام کام کر قریب بھی کرے ، مثلا لڑکی سے خلوت ، یا اس کے ساتھ کہیں باہر سیر وتفریح کے لیے نکلنا ، وغیرہ ۔

میں اللہ تعالی سے دعاکرتاہوں کہ وہ آپ کے لیے کوئي ایسی لڑکی مہیا کردے جو آپ کے لیے اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر مدد گار اورمعاون ثابت ہو ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد